پانی، لاشوں اور حب الوطنی کا موسم

Blogger Nadim Faroqi

انڈیا میں ایک بار پھر پاکستان مخالفت کا سیلاب امڈ آیا ہے، مگر یہ ایک ایسا سیلاب ہے جس میں پانی بند کر دیا گیا ہے!
مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر نامعلوم حملہ آوروں نے مبینہ دہشت گردی کی، اور مودی سرکار نے بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر اُنگلی اٹھا دی۔ اس واقعے کی آڑ میں نہ صرف سندھ طاس معاہدہ معطل کیا گیا، بل کہ پاکستانی سیاحوں کو فوری طور پر واپسی کا حکم، اٹاری بارڈر کی بندش اور کئی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت بھی جاری ہوگئی۔ نیز مودی سرکار نے اعلان کیا کہ ’’پاکستان کو سبق سکھانا ہے۔‘‘
اب یہ سبق کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ بس اتنا ضرور ہے کہ یہ سبق اتنا سخت ہے کہ ورلڈ بینک کے چہرے کی رنگت بھی زرد ہوگئی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ، جو برسوں سے عالمی قوانین کی دستار سر پہ سجائے بیٹھا تھا، اچانک بھارتی سیاست کی چپلوں تلے کچل دیا گیا۔ یعنی: پانی بند، بارڈر بند، عقل مکمل طور پر بند لیکن بھارتی میڈیا کی "TRP” مکمل طور پر کھلی۔ ٹی وی اینکر مکے مار مار کر دہاڑ رہے ہیں کہ پاکستانی فن کاروں، شاعروں اور حتیٰ کہ سیاحوں کو بھی فوراً واپس بھیجو۔ ہمیں امن کی نہیں، ڈرامے کی ضرورت ہے۔
اب اگر کوئی پاکستانی تاج محل کے سامنے تصویر بھی کھینچ لے، تو اُسے فوٹو بم قرار دیا جائے گا۔
مذہبی جنون کا پارہ اتنا چڑھ چکا ہے کہ تھرمامیٹر نے بھی ہار مان لی ہے۔ ٹی وی شوز میں کچھ لوگ مائیک کی جگہ تلواریں لے آئے ہیں اور ہر سوال کا جواب صرف ایک ہی ہوتا ہے: ’’پاکستان کو ختم کر دو!‘‘
ایسا لگتا ہے جیسے امن کے تمام امکانات کسی پرانے ٹی وی سیریل کی قسط بن چکے ہیں۔ "Coming Next Week” جو کبھی آن ایئر ہی نہیں ہوگی۔
یوٹیوب پر ایک نیا نعرہ جنم لے چکا ہے: ’’پہلے پانی بند، پھر اٹاری بند اور پھر آخر میں پورا ملک بند!‘‘
ان کے نزدیک امن ایک سازش ہے اور دوستی کم زوری۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایٹم بم کوئی دکان کی فروزن ڈیل ہے، جو "Buy 1, Destroy 2” کی اسکیم میں دست یاب ہے، لیکن ہمیں یہ سچائی یاد رکھنی چاہیے کہ جب کسی سیاسی پارٹی کا گراف نیچے گر رہا ہو، تو نفرت کا گراف اوپر چڑھانے کا سب سے آزمودہ طریقہ یہی ہوتا ہے۔ مسئلے کو اتنا جذباتی بنا دیا جائے کہ عوام کو اپنی ہی عقل تک رسائی نہ رہے۔
مودی سرکار، کشمیر میں سرچ آپریشنز کی آڑ میں ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں ٹھونس رہی ہے اور ہندوتوا کے نعرے کے ذریعے سیاسی فائدہ حاصل کر رہی ہے۔
اِدھر پاکستان کا منظر نامہ بھی مختلف نہیں۔ مذہبی جماعتیں اور سیاسی پارٹیاں ہندوؤں کے خلاف جنگی نعرے لگا رہی ہیں، جیسے یہ کوئی کھیل ہو۔ کوئی امن کی بات نہیں کرتا…… بس جنگ کا شور، غصے کا ایندھن اور عوام کو جذبات کی بھٹی میں جھونکنے کا مقابلہ دونوں طرف سے جاری ہے۔ دونوں طرف کی اشرافیہ اپنے سیاسی، مذہبی اور مالیاتی فائدے سمیٹنے میں لگی ہے…… لیکن سب سے خطرناک حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ایٹمی جنگ کسی فلمی سین کا موضوع نہیں، بل کہ ایک معمولی غلط فہمی، ایک بے بنیاد الزام یا ایک بھڑکیلا بیان اس خطے کو لمحوں میں راکھ کے ڈھیر میں بدل سکتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام خود فیصلہ کریں کہ کیا ہم مذہب، نفرت اور سیاست کے اس کھیل کا ایندھن بنیں گے، یا ہم امن، دانش اور انسانیت کے راستے پر چلنے کی جرات کریں گے ؟
ایک لمحے کی کوتاہی صرف یہ خطہ ہی نہیں، پوری دنیا کو تاریخ کے آخری دھویں میں لپیٹ سکتی ہے، اور پھر شاید کوئی مورخ باقی نہ رہے، جو ہماری حماقتوں کی داستان لکھ سکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے