جنگوں کے پیچھے قوتیں

Blogger Abu Jaun Raza

پس ماندہ ممالک میں لوگ ہر وقت اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ روزمرہ کے اخراجات اور خاندان کی ذمے داریوں کی ٹینشن، ہمہ وقت کے مسائل، بے ہنگم ٹریفک میں انسانوں کو کچلتے ہوئے ڈمپر ٹرالر اور گاڑیوں میں جھانکتی ہوئی آنکھیں، ان سب سے روزانہ ہم بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایلن ٹوفلر کہتا ہے کہ تاریخ کی لہروں میں جب تصادم ہوتا ہے، تو تمام تہذیبوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراو ہوتا ہے۔ وہ انسانی تاریخ کی پہلی لہر زراعت، دوسری صنعت اور تیسری ’’افواج‘‘ کو قرار دیتا ہے۔
پہلی تہذیب کی شناخت بیلچے سے ہوئی، دوسری کی پیداواری نظام سے اور تیسری تہذیب کی ترجمانی کمپیوٹر کررہا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پہلی تہذیب سے وابستہ طبقہ دنیا کو زرعی اور معدنیاتی وسائل فراہم کرنے میں جتا ہوا ہے، دوسری تہذیب سے وابستہ طبقہ سستے مزدور اور پیداوار مہیا کررہا ہے۔تیسرا معلومات تخلیق کرنے اور ان کے ذریعے دوسروں کا استحصال کرنے کے نت نئے طریقے ایجاد کررہا ہے اور بدقسمتی سے یہی طبقہ اس وقت بالا دست ہے۔
1945ء کی دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک جتنی جنگیں دنیا کے مختلف حصوں میں ہوئی ہیں، اُن میں مرنے والے صرف فوجیوں کی تعداد پہلی جنگِ عظیم کے 84 لاکھ فوجیوں سے کہیں زیادہ ہے، یعنی ہم پہلی جنگِ عظیم دوبارہ لڑچکے ہیں۔ جب ان لڑائیوں میں شہری اموات کو شامل کیا جاتا ہے، تو ان کی تعداد کروڑوں میں پہنچ جاتی ہے۔
ہر سال فوجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف ممالک کھربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جنگ کی آگ اُن کی سرحدوں پر نہ پہنچے۔ یقین جانیے، مستقبل کی ’’خیالی جنگیں‘‘ بھی عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو اُڑا لے جاتی ہیں۔ پسِ آئینہ کچھ قوتیں ایسی ہیں، جو جنگوں کے لیے نظریات، اسلحہ اور امداد فراہم کرتی ہیں، مگر ساتھ ساتھ وہ اس بات پر نظر رکھتی ہیں کہ ایٹمی قوتیں ایک حد تک برسرِپیکار رہیں، دیوانگی اس حد تک نہ بڑھے کہ دونوں میں سے کوئی بھی نیوکلیئر کا استعمال کرے، جس کی وجہ سے ’’اقتصاد‘‘ پر ایسا اثر پڑے اور دنیا مفلوج ہوجائے۔
جنگیں ہمیشہ کسی احمقانہ سوچ، غلط اندازے، مذہبی انتہا پسندی اور جنونی کیفیات کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ جنگیں دعائیں مانگنے، مظاہرے کرنے یا جلوس نکالنے سے بند نہیں ہوتیں، نہ ان کو ٹالا ہی جاسکتا ہے، جب تک سیاست دان اور جنگ جو ذہنیت کے افراد مل کر ایسے حالات پیدا نہیں کردیتے کہ جنگ ٹل جائے یا کسی حد تک محدود ہوجائے۔ جنگوں کو بڑھاوا دینے والے مختلف کارڈز کا استعمال کرتے ہیں، جن میں مذہب، قوم یا نسل پرستی جیسے تعصبات کا بے محابہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انتہائی تعلیم یافتہ افراد بھی، مذہبی تعصب کی وجہ سے ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر اپنے مسائل حل نہیں کرسکتے۔ اسی طرح سے دہشت گردی بھی ایک موثر کارڈ ہے، اس کے ذریعے سے موثر قوتیں تشدد کا ایسا کھیل سجاتی ہیں، جو انسانوں کی سوچ پر حاوی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ریاستیں اپنا فرض سمجھتی ہیں کہ دہشت گردی کے ڈرامے پر ایسے تحفظ کا ردِ عمل کریں جس میں بھرپور قوت کا اظہار ہو، مثلاً: کسی آبادی کو سزا دی جائے یا کسی بیرون ملک پر حملہ کیا جائے!
لوگ خدا سے معجزوں کی دعا تو مانگتے رہے، مگر انھوں نے خود قحط، وبا اور جنگ پر قابو پانے کی شاید ہی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو۔ آنتون چیخوف کا قول مشہور ہے کہ ’’اگر پہلے ایکٹ میں بندوق نظر آئے، تو تیسرے ایکٹ تک وہ یقینا استعمال ہوسکتی ہے۔‘‘
یہ دنیا اس وقت بین البراعظمی میزائلوں اور ایٹمی بموں سے بھری ہوئی ہے۔ دعا ہے کہ دہشت گردی یا مذہبی کارڈ کا استعمال انسانیت کو پتھروں کے دور میں واپس نہ دھکیل دے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے