محمود درویش کا فلسطین

تحریر: فاروق حسن 
محمود درویش کا جنم 13 مارچ 1942ء کو ’’بِروہ‘‘ نامی گاؤں میں ہوا جو گیلیلی کے شمال میں، فلسطین کے ضلع عکّا میں واقع ہے۔
ابھی محمود درویش کی عمر چھے برس کی نہیں ہوئی تھی کہ اسرائیلی فوج نے بروہ پر، 416 دوسرے دیہاتوں کی طرح، قبضہ کر لیا اور وہاں کے باسیوں کو وہاں سے مار بھگانے اور بے دخل کرنے کے لیے دہشت گردی شروع کر دی۔ قتل و غارت سے بچنے کی خاطر وہ اور اُس کا کنبہ لبنان فرار ہوگئے، جہاں وہ ’’دیر الاسد‘‘ نامی گاؤں میں قیام پذیر ہوئے، لیکن وہاں سے واپس لوٹنے میں اُنھوں نے اتنی تاخیر کر دی کہ اسرائیل کی مردم شماری میں شامل ہونے سے رہ گئے اور یوں اپنے ہی ملک میں غیر قانونی (داخلی پنا ہ گزین) بن کر رہ گئے۔
جب کبھی سکول کے معاینے کی خاطر کوئی تعلیم کا انسپکٹر یا پولیس آفیسر وہاں کا دورہ کرتا، آٹھ دس سالہ ہوش مند محمود درویش کو اساتذہ کسی کوٹھڑی میں چھپا دیتے کہ کہیں وہ فوج یا پولیس کے ہتھّے نہ چڑھ جائے۔ محمود درویش کو خود اپنے ملک کے اندر سفر کے لیے اجازت نامے لینے کی ضرورت پڑنے لگی۔
سکول کے زمانے سے لے کر ملک چھوڑنے تک (اس نے 1971ء میں اسرائیل کو خیرباد کہا) محمود کو کئی بار جیل جانا پڑا…… عموماً اپنی شاعری پڑھنے کی سزا کے طور پر یا ایک دیہات سے دوسرے میں اجازت نامے کے بغیر سفر کرنے پر۔ اُس کی اُس وقت کی ایک یادداشت کے مطابق پہلی بار اُس نے آٹھویں کلاس میں مائیکرو فون کے آگے کھڑے ہو کر اپنی ایک نظم پڑھی، جس میں وہ اپنے ہم عمر اسرائیلی طالب علموں سے شکایت کرتا ہے کہ وہ زندگی میں ہر چیز کا مزا لے سکتے ہیں، جب کہ وہ خود کبھی اس قابل نہیں ہوا۔نہ اُس کے پاس گھر ہے نہ کھلونے، نہ کوئی ایسا ذریعہ جس سے وہ دنیا کے وہ لطف اُٹھا سکے، جو اسرائیلی بچے اُٹھا رہے تھے۔
نظم پڑھنے کے اگلے ہی روز اُسے فوجی دفتر سے بلاوا آ گیا، اور اُسے دھمکی دی گئی کہ اگر اُس نے آیندہ ایسی کوئی نظم تحریر کی یا پڑھی، تو اُس کے والد کو پتھروں کی کان کے کام سے الگ کر دیا جائے گا…… اور اُس کے خاندان کو روٹی کے لالے پڑ جائیں گے۔
بروہ کو سطحِ زمین اور اسرائیل کے نقشے سے مکمل طور پر حذف کر دیا گیا، لیکن اُسے محمود درویش کی یادداشت سے محو نہ کیا جا سکا۔ وہ اُس کے ذہن میں فردوسِ گم گشتہ کے نقش کی صورت میں موجود رہا۔
1997ء میں جب اسرائیلی فلم ساز ’’سیمون بی تون‘‘ محمود درویش کے بچپن کے منظر نامے کی تلاش میں گیلیلی پہنچی، تو اُسے وہاں کھنڈرات اور جھاڑ جھنکاڑ سے اَٹے قبرستان کے علاوہ کچھ نظر نہ آ سکا۔ اُس کی خواہش تھی کہ بِروہ کو، جو کسی زمانے میں زندگی سے بھرپور جگہ تھی، فلمائے اور محمود درویش کی اوائلِ عمری کے پسندیدہ مناظر کو بھی، جن سے اُس کی گہری آشنائی تھی۔مثلاً: وہ کنواں جس میں چاند کا عکس اتر آیا کرتا تھا، اِنولا کے زرد پھول جو کنویں کی منڈیر پر اُگا کرتے تھے، شہتوت کا ایک درخت جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر پادری چیکرز کا کھیل کھیلا کرتا تھا اور عکّا کے ساحل کا دل فریب منظر جس نے اپنے ایک بیٹے کو مشہور و معروف شاعر بنا دیا تھا، وغیرہ۔ لیکن وہاں کے نئے کیبوتز کے آبادکاروں نے سیمون سے جھگڑا شروع کر دیا، حتیٰ کہ اُسے پولیس کو بلانا پڑا۔ اُس نے پولیس کوبتایا کہ وہ جنگ و جدل کی خواہش مند نہ تھی، وہ صرف گاؤں کے کھنڈرات کو فلمانا چاہتی تھی۔ کون سے کھنڈرات……؟ پولیس نے اس سے استفسار کیا۔ سارے علاقے میں اب سوائے کھنڈرات کے اور کچھ نہیں تھا۔
16 اپریل 2001ء کو اسرائیل کے بل ڈوزروں نے بِروہ کے قبرستان کے درمیان میں سے نئی سڑک کی تعمیر شروع کر دی اور انسانی کھوپڑیاں اور ہڈیاں چاروں جانب بکھیر دیں۔ یوں وہ معدوم دیہات ایک بے گھر اور بے وطن شاعر کے لیے ایسے سامان کا شعری استعارہ بن گیا ہے، جسے پناہ گزین کی حیثیت سے وہ کم و بیش 35 برس تک کندھوں پر اُٹھائے پھرا۔
’’ایتھنز کا ہوائی اڈّا‘‘ نظم میں ایک کسٹم آفیسر جب ایک بڑھیا سے پوچھتا ہے کہ اُس کے اور اُس کے ساتھیوں کے گاؤں کا پتا کیا ہے؟ تو وہ جواب دیتی ہے: ’’میری گٹھڑی میرا گاؤں ہے۔‘‘
بِروہ کے کھنڈرات ایک نئے کیبوتز کی تعمیر اور اپنی سرزمین سے بے دخلی پر نہایت حسرت آمیز دکھ کے ساتھ محمود درویش نے کہا کہ جب تک اُس کی روح زندہ ہے، کوئی شخص بھی فلسطین سے اُس کی وابستگی اور وہاں کی سکونت کے لیے اس کی شدید خواہش کو ختم نہیں کرسکتا۔
(نوٹ:۔ یہ اقتباس کتاب ’’محمود درویش کا فلسطین‘‘ میں شامل تعارفی مضمون سے لیا گیا ہے، مدیر)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے