مجھے اپنا بچپن اور خاص کر 90ء کی دہائی اچھی خاصی باریکیوں کے ساتھ یاد ہے۔ اس حوالے سے ’’مینگورہ، اک شہر بے مثال‘‘ کے عنوان سے راقم کا 12 اقساط پر مشتمل ایک تحریری سلسلہ ان صفحات کی زینت بن چکا ہے۔
کامریڈ امجد علی سحاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
ٹانگو اڈے (گلشن چوک) سے 8 آنے کی سواری اپنے دادا (مرحوم حاجی محمد المعروف بزوگر جنھیں ہم بابا کَہ کر بلاتے) کے ساتھ یاد ہے۔ بابا زیادہ تر سیدو یا سنٹرل اسپتال جاتے وقت تانگے کی سواری بادِ بہاری کا لطف اُٹھانے کو ترجیح دیتے۔ اُس وقت مرغزار اڈے کے سامنے ایک رکشوں کا سٹینڈ ہوا کرتا تھا، جو تاحال وہاں موجود ہے، البتہ مرغزار اڈا وہاں سے ملا بابا کے مزار کے ساتھ پٹرول پمپ شفٹ کردیا گیا ہے۔ مجھے رکشوں کے مذکورہ سٹینڈ پر فی سواری کرایہ 8 آنے یاد ہے۔ اسی طرح سوزوکی کا کرایہ بھی 8 آنے ہی مقرر تھا، جس کی سروس ’’ٹانگو اڈے‘‘ سے چلتی تھی۔
ٹانگو اڈے کے ساتھ بھی کئی یادیں وابستہ ہیں۔ میرے چچا رسول خان کا شمار اڈے کے ماہر اور تیز رفتار ڈرائیور حضرات میں ہوتا تھا۔ اُن دِنوں عموماً شادی کے مواقع اور خاص کر برات کے وقت دولھے کی لاج رکھنے عزیز و اقارب اپنی اپنی گاڑیاں لاتے۔ دولھن کی گاڑی پھولوں سے سجائی گئی اور مہنگی ہوتی، جس کے پیچھے دیگر گاڑیوں کی قطار لگی ہوتی۔ سب کی کوشش ہوتی کہ دولھن والی گاڑی کی پیچھے اُن کی گاڑی ہو۔ اس کوشش میں اکثر حادثہ بھی پیش آتا۔ایسا آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
میرے چچا رسول خان اس حوالے سے ٹانگو اڈے میں مشہور تھے کہ وہ ایک عجیب شرط کے ساتھ برات کا حصہ بننے جاتے۔ شرط یہ ہوتی کہ برات میں جتنی گاڑیاں شامل ہیں، اُنھیں 10 کے عدد سے ضرب دیں۔ مثلاً اگر 20 گاڑیاں ہیں، تو کرایہ 200 روپے بنے گا۔ شرط میں یہ بات بھی شامل ہوتی، کہ اگر ایک بھی گاڑی رسول خان کی گاڑی سے آگے منزل پر پہنچ گئی، تو 100 روپے کٹیں گے۔ کئی شادیوں میں ہم چچا کے ساتھ گاڑی میں برات کا حصہ بنے، کم از کم مجھے نہیں یاد کہ چچا سے کسی کی گاڑی آگے منزل پر پہنچی ہو۔
دیگر متعلقہ مضامین:
مینگورہ کے چوکوں کے نام کیسے پڑے؟
سانحۂ مینگورہ (اگست 1937ء)
مینگورہ، اِک شہرِ بے مثال
مینگورہ اور تجاوزات
مینگورہ، دہشت گردوں کے خلاف تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ
آگے چل کر میرے سب سے چھوٹے چچا ایوب خان کا شمار بھی اس قبیل کے تیز رفتار ڈرائیوروں میں ہونے لگا۔
آمدم بر سرِ مطلب، پرسوں ایک عرصہ بعد جی ٹی روڈ مینگورہ پر تانگا دُلکی چال چلتا نظر آیا، تو یادوں کا ایک طوفان سا اُمنڈ آیا۔ جلد اُسے کیمرے کی آنکھ سے قید کیا، تاکہ وقتاً فوقتاً دل کے زخم ہرے کرنے کا سامان تو ہو۔
جملۂ معترضہ کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ عرصہ چار سال قبل رحیم آباد سے واپسی پر ایک سفید ریش تانگے والا ملا۔ مَیں بہ خوشی سور ہوا۔ راستے میں تانگے والے بابا سے گفت و شنید ہوئی۔ فرمایا: ’’بچونگڑیا، جس والہانہ انداز سے تم سوار ہوئے ہو، روز کوئی نہ کوئی تمھاری طرح سوار ہوتے ہی مجھے کرید کرید کر پوچھتا ہے، اور مَیں بھی بخل سے کام لیے بغیر اُسے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیتا ہوں۔ مجھے پتا ہوتا ہے کہ سوال پوچھنے والا ماضی کے سحر میں گرفتار ہے ۔‘‘
اُس اُترتے وقت کرایہ کا پوچھا، تو تانگے والا بابا فرمانے لگا: ’’قدردانوں سے کرایہ لیتے ہوئے اچھا نہیں لگتا، جا…… عیش کر!‘‘
مَیں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا: ’’بابا جی! گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا، تو کھائے گا کیا؟ میری قدردانی آپ کا پیٹ بھرنے سے رہی۔‘‘
خدا جھوٹ نہ بلوائے اُس روز حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے جیب میں جو سب سے بڑا نوٹ (شاید 100 روپے) تھا، اُنھیں تھماتے ہوئے کہا کہ بابا جی، ہر مہینے کی 15 تاریخ کے بعد ہماری جیب میں پشتو کہاوت کے مصداق ’’بچھو پڑا ہوتا ہے۔‘‘ اندر ہاتھ ڈالا اور جیسے ڈنک لگ گیا۔ یہ سنتے ہی تانگے والے بابا کا قہقہہ بلند ہوا۔
قارئینِ کرام! آج یہ سطور تحریر کرتے وقت انجمؔ عظیم آبادی کا شعر بے طرح یاد آ رہا ہے، جو شاید اس ٹوٹی پھوٹی تحریر میں محسوس ہونے والی جھول کو کم کرنے کا سامان بنے، شعر ملاحظہ ہو:
اپنی جیب تھی خالی، خالی کرتے کیا
خوش پوشی کی لاج نبھالی، کرتے کیا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔