غالباً یہ 2002ء کی بات ہے۔ ہم اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ ایک ٹریفک آفیسر ہمارے کمرے میں آگئے۔ سلام دعا کے بعد انھوں نے میز پر سول اسٹیشن روڈز کا ایک نقشہ جو وہ ساتھ لائے تھے، پھیلا دیا اور کہا کہ اس میں ہم درج شدہ چوکوں کے درمیانی فاصلے لکھ دیں۔ مثلاً گرین چوک سے پیپلز چوک تک، گرین چوک سے سہراب خان چوک تک و علیٰ ہذا القیاس۔ میرے ساتھ ایک روڈ انسپکٹر بھی تھا۔ اُس نے کہا کہ اس نقشے میں "اللہ چوک” درج نہیں ہے۔ مجھے اللہ کے نام کے ساتھ چوک کا یہ "کمبی نیشن” بہت نامناسب اور برا لگا۔ میں نے اُسے ڈانٹا، تو ٹریفک آفیسر نے نہایت نرم لہجے میں کہا: "ہمارے کاغذات میں اس چوک کا نام "توحید چوک” ہے۔ اُن کے یہ الفاظ اتنے خوبصورت اور میٹھے لگے کہ میں کیا بتاؤں! میں نے اُس آفیسر کو دوبارہ غور سے دیکھا۔ اُن کا چہرہ کسی پولیس آفیسر کی بجائے بالکل ایک ولی کا چہرہ لگا۔ خوبصورت کالی شرعی داڑھی نے اُن کے نورانی خد و خال میں مزید اضافہ کیا تھا۔ اطمینانِ قلب اُن کی باتوں سے عیاں تھا۔ میں حیرت میں پڑ گیا کہ
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں ہے
یہ باتیں مجھے اس وقت یاد آگئیں جب میں نے ڈاکٹر سلطان روم صاحب مدظلہ کا "گرین چوک” کے بارے میں ایک تحقیقی مقالہ پڑھا۔ ڈاکٹر صاحب تحقیق کے آدمی ہیں اور انھوں نے واقعی عرق ریزی سے اس کے بارے میں ریسرچ کیا ہے۔ حالاں کہ یہ اتنی پاپڑ بیلنے والی بات نہیں تھی۔ آپ کسی بھی 60 سالہ شہری سے پوچھتے، تو وہ آپ کو یہ سب کچھ بتا دیتے، مگر ایک محقق کا اپنا طریقۂ کار ہوتا ہے، اور وہ اُسی لائن پر چلتا ہے۔ بہرحال اس مضمون نے میری توجہ دوسرے چوکوں کی طرف مبذول کرائی کہ اُن کے یہ بے تُکے نام کیسے پڑے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کے نام کم از کم مینگورہ کے مشاہیر سے منسوب کیے جاتے۔ یہ نام از خود ہی پڑگئے اور وقت کے ساتھ زبان زد خاص و عام ہوگئے اور لوگ ان سے اس قدر مانوس ہوگئے کہ اب اگر ان کو تبدیل بھی کیا جائے، تو عوام کی زبان پر مشکل سے چڑھیں گے۔
گرین چوک "Green” ہی ہے اور "Grain” نہیں ہے۔ یہ غلے کی دکانیں اور منڈیاں اس وقت سے موجود تھیں، جب گرین چوک کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ نیو روڈ بھی نہیں بنی تھی اور نیک پی خیل کی طرف جانے کے لیے وہی تنگ چور بازار والی سڑک استعمال ہوتی تھی۔ جب نیو روڈ بن گئی، تو اس وقت مینگورہ میں کوئی مخصوص اڈّا نہیں تھا، تو نیو روڈ اور کانجو روڈ کے نئے سنگم پر شہزادہ سلطان روم نے بسوں کا پہلا اڈّا تعمیر کروایا، جہاں سے نہ صرف پشاور بلکہ شانگلہ اور کوہستان تک گاڑیاں جاتی تھیں۔ سوات ٹریول کی مشہور نئی بس سروس بھی یہاں سے پشاور جاتی تھی، جو ڈھائی روپیہ سواری کے حساب سے کرایہ لیتی تھی۔ اسی اڈّے میں مسافروں کی سہولت کے لیے ایک ہوٹل بھی بنایا گیا تھا، جس کا نام پشاور کے مشہور "گرین ہوٹل” (Green Hotel) کے نام پر رکھا گیا۔ اسی طرح اس اڈّے کے سامنے چوک کا نام گرین چوک پڑگیا اور اڈّا "گرین اڈّا” کے نام سے مشہور ہوا۔
"پیپلز چوک” کا نام ڈاکٹر محبوب الرحمان کے پیٹرول پمپ پیپلز فلنگ اسٹیشن کی وجہ سے رکھ دیا گیا۔ "تاج چوک” کا نام گرین چوک کی طرح، قریب ہی واقع "تاج ہوٹل” کے باعث پڑگیا۔ مذکورہ ہوٹل مرحوم بادشاہ صاحب کی ملکیت تھا اور اس کے ساتھ ہی دکانوں کا سلسلہ بینک اسکوائر اور اس زمانے کے ملک التجار "حاجی اسماعیل”، "حاجی اسحاق” کے دفتر تک پھیلا ہوا تھا۔ اسی پورے بلاک کو اس وقت "شاہی کٹھڑا” یا پشتو میں "کتیڑا” کہا جاتا تھا۔ دکانوں کے سائن بورڈز میں اس وقت "کٹھڑا شاہی گنج”  کے الفاظ ضرور دیکھنے میں آتے تھے۔
کسی زمانے میں مینگورہ میں صرف ایک ہی بڑا بازار تھا، جسے اب "مین بازار” کہتے ہیں۔ اس میں واقع تین روڈز کے سنگم کو "مین بازار چوک” کہتے ہیں۔ پھر حاجی بابا چوک، ملا بابا چوک، نوے کلے چوک، سہراب چوک وغیرہ کی وجۂ تسمیہ ان کے ناموں ہی سے ظاہر ہے۔
نشاط چوک جو اکثر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا ہے، "نشاط کیفے” کی مناسبت سے پڑگیا۔ ہمارے طالب علمی کے دور میں یہ یہاں کا مشہور کیفے تھا، جس میں مرحوم شیرزادہ حاجی صاحب کے ایک بھتیجے عثمان منیجر تھے۔ اس کیفے میں ہم نے پہلی بار خودکار "ریڈیو گرام” (Radio Gram) دیکھا، جس پر کئی ریکارڈر بیک وقت رکھے جاتے اور وہ باری باری بجتے جاتے تھے۔ لڑکے یہ ریکارڈرز سننے کے لیے آتے اور کیفے کا کاروبار چلتا رہتا۔
ایک اور چوک گلشن کا نام اس لیے پڑگیا کہ وہاں پر "گلشن ماما” کی ٹیکسیاں کھڑی ہوتی تھیں، جو ٹیکسی کاروں کے واحد مالک تھے۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔