دوستو! آپ سب ریاستِ سوات کے جھنڈے کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ اسے والئی سوات کی رہایش گاہ پر ہر صبح لہرایا جاتا اور غروبِ آفتاب کے بعد اُتار لیا جاتا۔ اس کے سکولوں میں 12 دسمبر اور 5 جون کو بھی ’’فلیگ ماسٹ‘‘ پر چڑھایا جاتا تھا۔
ریاستِ سوات ایک شاہی ریاست تھی۔ یہ 4 ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی حدود میں موجودہ شانگلہ، بونیر اور کوہستان اور سوات شامل تھے۔ ریاست کا اپنا ترانہ بھی تھا، جو سمندر خان سمندرؔ نے لکھا تھا۔
مذکورہ ترانے کے الفاظ کچ اس طرح تھے:
کل ثنا ربہ ستا دہ
ربنا دا دعا دہ
دا زمونگ التجا دہ
تر حیات سوات زیات کڑے لہ دے
لہ دے نہ یو پہ سل گل گل
بادشاہ مولرے
لرے دنیا سو ابادہ
وی امام قام تام دی خوشالہ
خوشالہ دی وی تل تل تل
عدلیہ، شریعت اور عوامی دود دستور یعنی رواج نامہ کی رُو سے فیصلہ کرنے کی پابند تھی۔ حکم ران سے ملنے میں کوئی رُکاوٹ نہیں تھی۔
در اصل مَیں بات کرنا چاہتا تھا قومی جھنڈے کے بارے میں، جو کسی بھی ملک کا ہو، قابلِ احترام ہوتا ہے۔یہ ریاستوں کی عظمت کا اور خود مختاری کا "Symbol” ہے۔
میری ایک حالیہ تحریر میں میاندم ریسٹ ہاؤسز میں امریکی طلبہ کے قیام کا ذکر تھا۔اُس وقت مجھے یاد نہیں تھا،مگر آج یہ تحریر رقم کرتے وقت یاد آیا۔ اُن لوگوں نے ریسٹ ہاؤس کے خوب صورت لان کے ایک کنارے ایستادہ ’’فلیگ ماسٹ‘‘ پر امریکی جھنڈا لہرا یا اور "Star sprangled banner” کے بول دہرائے۔
جب ریاستِ سوات کے ادغام کا اعلان ہوا،تو ریاست کے ڈائریکٹر تعلیم کے دفتر سے تمام سکولوں کے ہیڈ ماسٹروں کو ایک سرکلر جاری کیا گیا کہ ریاست چوں کہ ختم کردی گئی، اس لیے ریاستی جھنڈے واپس دفترِ تعلیم میں جمع کیے جائیں۔ نیز ہیڈ ماسٹروں کی مہروں سے "State” کا لفظ مٹا دیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔