آزادیِ اظہارِ رائے پر کاری ضرب

صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کا بنیادی ستون ہے، جو عوام کو ان کے حقوق، حکومت کی پالیسیوں اور دیگر اہم امور کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے۔ آزادیِ اظہارِ رائے اور صحافیوں کی معلومات تک رسائی کسی بھی ترقی پسند ریاست کی پہچان ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں یہ اُصول اکثر دباو کا شکار رہتے ہیں۔ مطیع اللہ جان اور ثاقب بشیر جیسے صحافیوں کی گرفتاری نہ صرف صحافت پر حملہ ہے، بل کہ یہ سوال بھی اُٹھاتی ہے کہ حکومت آزادیِ اظہارِ رائے کے حوالے سے اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ آزادیِ صحافت ایک بنیادی حق ہے جو کسی بھی ریاست کی جمہوری حیثیت کو مضبوط کرتا ہے، لیکن اگر اس حق کو محدود کیا جائے، تو یہ جمہوری اقدار کو کم زور کر دیتا ہے۔
آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 19 ہر شہری کو آزادیِ اظہارِ رائے کا حق دیتا ہے، جو جمہوریت کا لازمی جزو ہے۔ یہ حق اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ لوگ بغیر کسی خوف کے اپنی رائے کا اظہار کرسکیں اور معاشرے کے مسائل پر گفت گو ہوسکے۔ صحافی اس حق کے محافظ ہیں، جو عوامی مسائل کو حکام کے سامنے لاتے ہیں۔ ان کا کردار ایک آزاد اور متحرک معاشرے کے لیے ناگزیر ہے، کیوں کہ وہ ان معاملات پر روشنی ڈالتے ہیں، جنھیں اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ صحافت کا یہ فریضہ صرف معلومات فراہم کرنے تک محدود نہیں، بل کہ یہ عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کے پل کی حیثیت رکھتا ہے۔
مطیع اللہ جان کی گرفتاری آزادیِ صحافت پر ایک کاری ضرب تھی۔ وہ ایک تجربہ کار اور بے باک صحافی ہیں، جو اکثر حساس اور اہم معاملات پر بات کرتے ہیں۔ اُن کی صحافتی اقدار کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ایک وقت میں جب مطیع اللہ جان کے پاس کوئی مرکزی میڈیا چینل یا اخبار تک نہیں تھا، اُس دور میں بھی اُنھوں نے اپنی قدر و منزلت صحافتی حلقوں میں اپنے یوٹیوب چینل کی مدد سے نہ صرف قائم رکھی، بل کہ اپنا وقار صحافت میں منوایا۔ آج بھی اُن کے ’’وی لاگ‘‘ معاشرے کو اس کا اصلی چہرہ دکھاتے ہیں۔ ان کی گرفتاری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حکومتی ادارے تنقید کو برداشت کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ریاستی ادارے آزادیِ اظہار کے حق کو محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے صحافت کا دائرہ محدود ہوتا ہے، جو عوامی شعور اور حکومتی احتساب کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جمہوریت کے ستون کم زور ہو رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (Universal Declaration of Human Rights) کے آرٹیکل 20 کے مطابق: ’’ہر شخص کو پُرامن اجتماع اور تنظیم سازی کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ کسی کو کسی تنظیم میں شمولیت پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
اس آرٹیکل کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ہر فرد کو آزادی سے اجتماع کرنے، خیالات کا تبادلہ کرنے اور کسی بھی دباو کے بغیر اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو نبھانے کا حق حاصل ہے۔ صحافت کا شعبہ، جس میں معلومات کی ترسیل اور تحقیق بنیادی حیثیت رکھتی ہے، ان اجتماعی آزادیوں پر انحصار کرتا ہے۔ اگر صحافی ان حقوق سے محروم ہوں، تو ان کے پیشہ ورانہ معیار اور معلومات کی سچائی پر منفی اثر پڑتا ہے، جو عوامی آگاہی کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔
مطیع اللہ جان اور ثاقب بشیر جیسے صحافیوں کی گرفتاری اس حق کی خلاف ورزی ہے، کیوں کہ یہ اُن کے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ایک آزاد اور محفوظ ماحول صحافیوں کے لیے ناگزیر ہے، تاکہ وہ اپنے خیالات اور معلومات کو عوام تک پہنچاسکیں۔ صحافیوں کو اپنے فرائض انجام دینے کے دوران میں خوف یا دباو کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ان کی آزادی کا تحفظ ہی جمہوریت کی بقا کی ضمانت دیتا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کو مختلف مشکلات کا سامنا ہے، جن میں دھمکیاں، حملے اور معلومات تک محدود رسائی شامل ہیں۔
مطیع اللہ جان اور ثاقب بشیر کی گرفتاری ایک خطرناک رجحان کو ظاہر کرتی ہے، جہاں صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تاکہ وہ آزادانہ رپورٹنگ سے باز رہیں۔ یہ رویہ صحافت کی اہمیت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی اعتماد کو بھی متاثر کرتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ان کے حقوق کا دفاع کرے، تاکہ وہ اپنے فرائض آزادی اور امان کے ساتھ انجام دے سکیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، صحافیوں کا تحفظ اور ان کی آزادی کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر صحافیوں کو دھمکایا جائے، گرفتار کیا جائے، یا ان کی رسائی محدود کی جائے، تو اس سے نہ صرف عوام کا نقصان ہوتا ہے، بل کہ جمہوریت بھی کم زور ہوتی ہے۔ یہ رجحان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ریاستی مشینری اپنی خامیوں کو چھپانے کے لیے معلومات کے بہاو کو محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے عوام اور حکومت کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہے، جو جمہوری نظام کے لیے نقصان دِہ ہے۔
ایک جمہوری حکومت کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ وہ آزادیِ اظہارِ رائے اور صحافت کا تحفظ کرے۔ موجودہ حکومت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ صحافی عوام اور حکومت کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی آزادی کو محدود کرنے سے عوامی مسائل دب جاتے ہیں، اور حکومت کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔ اگر حکومت اپنی خامیوں کی نشان دہی سے گھبراتی ہے، تو یہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک خطرناک علامت ہے۔
صحافت کا بنیادی مقصد عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ہے، لیکن یہ مقصد تبھی پورا ہوسکتا ہے جب صحافیوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے معلومات تک رسائی حاصل ہو۔ پاکستان میں اکثر معلومات تک رسائی کو محدود کیا جاتا ہے، خاص طور پر حساس معاملات پر۔ یہ رجحان نہ صرف صحافت، بل کہ جمہوریت کے لیے بھی نقصان دِہ ہے۔ صحافیوں کی آزادی کو محدود کرنا عوامی شعور کو کم زور کرنے کے مترادف ہے، جو کہ ایک صحت مند جمہوری معاشرے کے لیے نقصان دِہ ثابت ہوتا ہے۔
مطیع اللہ جان اور ثاقب بشیر کی گرفتاری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حکومت یا دیگر ادارے حساس معلومات کے حوالے سے کتنے غیر محفوظ ہیں۔ یہ رویہ آئین کے آرٹیکل 19-A کی خلاف ورزی ہے، جو شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔ معلومات تک رسائی نہ صرف صحافیوں کا حق ہے، بل کہ عوام کی بھی ضرورت ہے، تاکہ وہ اپنے حقوق اور حکومت کی کارکردگی کے بارے میں جان سکیں۔
آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن نہ صرف ملک کے اندر جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتی ہے، بل کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہے۔ صحافیوں کی آزادی محدود کرنا ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ حکومت تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ رویہ نہ صرف حکومتی کارکردگی پر سوال اُٹھاتا ہے، بل کہ عوامی مسائل کو حل کرنے کی رفتار کو بھی سست کر دیتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 19 اور آرٹیکل 20 دونوں صحافیوں کے حقوق اور آزادیِ اظہار کے تحفظ کے لیے اہم ہیں۔
یہ آرٹیکلز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر فرد کو اپنی رائے کے اظہار اور اجتماع کے لیے آزادی ہونی چاہیے۔ ان قوانین کا احترام صرف بین الاقوامی معاہدوں کی پاس داری کے لیے نہیں، بل کہ ایک جمہوری معاشرے کے بنیادی اُصولوں کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے۔
صحافیوں کی گرفتاری جیسے واقعات بین الاقوامی تنظیموں کو پاکستان کے خلاف سخت اقدامات پر مجبور کرسکتے ہیں، جو ملک کی اقتصادی اور سیاسی پوزیشن کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ آزادیِ صحافت کے بغیر نہ تو عوامی مسائل کو اُجاگر کیا جاسکتا ہے اور نہ حکومتی پالیسیوں کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
حکومت پر تنقید ضروری ہے، لیکن یہ تنقید تعمیری ہونی چاہیے۔ مطیع اللہ جان کی رہائی کے بعد حکومت کو چاہیے کہ وہ اس واقعے کی جامع تحقیقات کرے اور ذمے داروں کو جواب دِہ ٹھہرائے۔ ان اقدامات سے نہ صرف حکومت کی شفافیت بڑھے گی، بل کہ عوامی اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔
ساتھ ہی، صحافیوں کے تحفظ کے لیے واضح اور موثر قوانین بنائے جائیں، جن پر سختی سے عمل درآمد ہو۔ صحافیوں کو معلومات تک آزادانہ رسائی دینا اور ان کی آزادی کا احترام کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صحافت کے شعبے کو دبانے کے بہ جائے اسے فروغ دینے کے لیے اقدامات کرے، تاکہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں۔
مطیع اللہ جان اور ثاقب بشیر کی گرفتاری ایک سنگین مسئلے کی نشان دہی کرتی ہے، جو پاکستان میں آزادیِ اظہارِ رائے اور صحافت کے حوالے سے موجودہ حالات کو ظاہر کرتی ہے۔
اگر حکومت آزادیِ صحافت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات نہیں کرتی، تو یہ جمہوریت کے لیے ایک بڑا نقصان ہوگا۔ صحافیوں کو ان کا حق دینا اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانا نہ صرف عوام کے مفاد میں ہے، بل کہ یہ حکومت کی اپنی ساکھ کے لیے بھی ضروری ہے ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے