اسلام سے قبل عربوں کی حالت کچھ یوں تھی کہ رسولِ کریمؐ کی تشریف آوری سے قبل عرب معاشرے میں فتنہ و فساد جنگ و جدل روز مرہ کا معمول تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر آپس میں لڑ پڑتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قبیلوں میں لڑائیاں چھڑ جاتی تھیں اور پھر سال ہا سال تک جاری رہتی تھیں۔ آپ ؐ نے اپنے کردار اور انقلابی تعلیم سے ان کا مزاج بدل دیا۔ دشمن دوست بن گئے، اور خون کے پیاسے بھائی بن گئے۔ اس کو اُخوت کہتے ہیں۔
اخوت کا لفظ ’’اخ‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی بھائی کے ہیں۔ اُخوت سے مراد تمام روئے زمین کے مسلمانوں کا وہ باہمی تعلق ہے جس کی بنیاد محبت اور خیر خواہی پر استوار ہے۔
٭ اخوت اسلامی سے مراد:۔ اُخوتِ اسلامی سے مراد امتِ مسلمہ کے افراد کا باہمی بھائی چارہ ہے۔ آج سے کئی سو سال قبل قبیلۂ قریش کے ایک عظیم چشم و چراغ اور اللہ کے آخری پیغمبر رسول کریمؐ نے اخوت کی بنیاد رکھی۔ جہالت کے زمانے میں جہاں بھائی، بھائی کے خون کا پیاسا تھا۔ نبی کریمؐ نے خدائے واحد کا تصور پیش کیا، اور انہیں جہالت کے اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئے۔
٭ بھائی چارے کی سب سے بہترین مثال:۔ بھائی چارے کی سب سے بہترین مثال انصارِ مدینہ نے رسول کریمؐ کے حکم کی تعمیل میں پیش کی۔ جب آپؐ مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے، تو آپؐ نے مہاجرین اور انصارِ مدینہ کے درمیان بھائی چارے کا رشتہ قائم کیا۔ ہر مہاجر کو کسی انصاری کا دینی بھائی بتایا، جب کہ اس وقت مہاجرین کی تعداد 45 تھی۔ ہجرت کے بعد درپیش سب سے بڑا مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری کا تھا۔ کیوں کہ وہ دین کی خاطر اپنا گھر بار اور ساز و سامان سب کچھ چھوڑ آئے ہوئے تھے۔ آپؐ نے اس سلسلے میں ایک نہایت اہم قدم اُٹھا کر انصار و مہاجرین کو اسلام کے رشتۂ اخوت میں منسلک کردیا۔ انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں سے فیاضی اور ایثار کا ثبوت دیا۔ وہ اسلامی و عالمی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے۔ وہ مہاجرین جو مدینہ آنے کے بعد خود کو تنہا محسوس کررہے تھے، اپنے انصار بھائیوں سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنا وطن اور عزیز و اقارب چھوڑنے کا غم بھول گئے۔ انصار اور مہاجرین میں ایسا اتحاد و یگانگت پیدا ہوئی، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ انصار اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار تھے۔ انصارِ مدینہ اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار تھے۔
انصارِ مدینہ کا اپنے مہاجر بھائیوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک انصاری نے اپنے مہاجر بھائی عبدالرحان بن عوف سے مخاطب ہوکر کہا: ’’مَیں مدینہ کے تمام مسلمانوں میں سب سے امیر ہوں۔ مَیں نے تمہارے لیے اپنی آدھی دولت بچا رکھی ہے۔‘‘ عبدالرحمان بن عوف نے جواب میں بس اتنا کہہ دیا کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کی دولت کو آپ کے لیے سازگار بنائے، مجھے یہ نہیں چاہیے۔ آپ اگر میرے لیے کچھ کرسکتے ہیں، تو بس اتنا کردیجیے کہ مجھے بازار کا راستہ دکھا دیجیے۔
ایک دوسرے انصاری نے اپنے مہاجر بھائی سے کہا کہ میری چار بیویاں ہیں۔ ان میں سے آپ کو جو پسند ہے، میں اس کو طلاق دے دوں گا، اور آپ اس سے نکاح کرلیں۔ اسی نعمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ اور تم پر جو اللہ کا انعام ہے، اس کو یاد کرو۔ جب کہ تم دشمن تھے، تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی۔ سو تم اس کے انعام سے آپس میں بھائی ہوگئے۔ (سورۂ آلِ عمران)
مسلمانوں پر جب بھی کوئی تکلیف کا وقت آئے، تو دوسرے مسلمانوں کو اس تکلیف میں مالی و جانی دونوں طریقوں سے شرکت کرنی چاہیے۔ یہی رسولِ کریمؐ کا اسوۂ حسنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’یقینا تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں!‘‘ (سورۃ الحجرات)
اور نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے‘‘۔
اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے، آمین!
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔