مارتونگ

چونکیے مت۔ یہ نہ تو کسی چینی مصنف کا تذکرہ ہے، اور نہ ہی سرزمین چین میں واقع سنگیانگ کے قرب و جوار کے کسی علاقہ کا نام ہے۔ یہ تو آپ کے اپنے ہی ملک کے ایک انتہائی شمالی ضلع کی ایک دور افتادہ تحصیل کا ذکر ہے۔ جو مجھے اس پوری دنیا سے زیادہ عزیز ہے۔ اس ضلع کا نام شانگلہ پار ہے۔ شانگلہ دراصل صوبہ سرحد کے چند مشہور ٹاپس میں سے ایک ہے۔ سال کے بارہ مہینے یخ بستہ ہواؤں کا دروازہ اس جانب کھلا رہتا ہے۔ یہاں پہنچ کر اگر آپ چند لمحوں کے لیے گاڑی سے باہر نکل کر کھڑے ہوجائیں، تو رگوں میں دوڑتے خون کی حدت قصۂ پارینہ ہوجائے گی، اور سردی بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اپنی ٹھنڈی آغوش میں بھر لے گی۔ یہاں کھڑے ہوکر وادئی سوات کا ایک بڑا حصہ نظر آتا ہے۔ دریائے سوات کی بے راہ روی یہاں سے صاف نظر آجاتی ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر آباد گاؤں اور پہاڑیوں کے دامن تک پھیلے ہوئے کھیت، لیکن زیادہ تر یہ علاقہ دھند کی بانہوں میں پڑا جھول رہا ہوتا ہے۔ اس لیے ذوقِ نظارہ تشنہ تشنہ رہتا ہے۔ دوسری جانب اگر دیکھیں، تو ضلع شانگلہ پار ہے، پہاڑ قطار در قطاریوں کھڑے ہیں، جیسے کوئی فوجی دستہ پریڈ کے لیے ڈائس کے سامنے کھڑا ہو۔ دور پیچھے ضلع کوہستان کے برف پوش پہاڑ ہیں، جو لگتا ہے ان پہاڑوں کی کو تاہ قامتی پر ہنس رہے ہوں۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ سب پہاڑ دیار کے درختوں سے سر تاسر ڈھکے ہوتے تھے۔ لیکن اب ٹمبر مافیا کے برقی آروں نے ان میں سے اکثر و بیش تر کو بے لباس کردیا ہے۔ کہیں کہیں اب بھی ڈھلانوں پر اونچے اونچے درخت ناآشنا دیسوں سے آنے والی ہوا کی فن کارانہ انگلیوں سے ہلکے سروں میں سرگوشیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔
’’مارتونگ‘‘ اس ضلع کا نسبتاً غیر معروف علاقہ ہے۔ سوات میں اگر آپ کسی سے کہیں گے کہ میں مارتونگ کا رہنے والا ہوں، تو وہ ہنس کر پشتو کی ایک ضرب المثل سنائے گا۔ جس کا مطلب ہے ’’مرنے سے مارتونگ بہتر ہے۔‘‘ مارتونگ کے رہنے والے ہمیشہ ایک کھسیانی ہنسی کے ساتھ اس کا جواب دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’اصل میں مارتونگ مرنے کے لیے بہتر ہے۔‘‘ اس لیے کہ وہاں قبریں بڑی خوب صورت بنتی ہیں، لیکن بارانی علاقہ ہونے کی وجہ سے سوات کے دیگر حصوں کے مقابلہ میں یہ علاقہ یقینا بنجر اور خشک لگتا ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں غیروں کا طنز بہ ظاہر مبنی برحقیقت ہے۔ یہ زمین تو انتہائی زرخیز ہے، اور ہر قسم کی فصل دینے کے لیے تیار ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ آسمان کی مرضی بھی اس میں شامل ہو۔ مطلب یہ ہے کہ بارشوں کی بروقت مداخلت کے بغیر گندم، مکئی اور چاول کی فصلیں ایک ایسا خواب بن جاتی ہیں، جو آنکھوں کے عین سامنے تعبیر سے محروم ہوجاتی ہیں۔ گذشتہ کچھ سالوں سے بارشوں نے اس علاقہ سے میل جول کم کردیا ہے، اس لیے لوگ اپنے سر سبز خوابوں کو جل کر راکھ ہوتے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کا عام خیال ہے کہ انھیں اپنے حکمرانوں کے کرتوتوں کی سزا مل رہی ہے، یا ممکن ہے لوگوں کی سیاہ کاریوں کے نتیجہ میں انھیں یہ حکم راں ملے ہوں۔ وہ جو کہتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے۔ بہر حال حقیقت چاہے جو بھی ہو، یہاں عام آدمی کی زندگی خاصی مشکل کا شکار ہے۔ اسی وجہ سے یہاں کے زیادہ تر نوجوان کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر رکشہ ٹیکسی دوڑاتے پھرتے ہیں۔
والی صاحب کے دورِ حکومت میں جب مارتونگ سوات ہی کا ایک حصہ تھا، اس علاقہ کی شہرت ایک عالمِ دین کی وجہ سے تھی، جو ’’مارتونگ بابا‘‘ کے نام سے مشہور تھے، جو منطق کے دقیق مسائل کو آسان کرنے کے لیے مشہور تھے۔ اس لیے دور دور سے تشنگانِ منطق ان سے فیضیاب ہونے کے لیے اس دور افتادہ علاقہ کا رُخ کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔ کچھ عرصہ قبل ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ اب لگتا ہے، یہ دروازہ بند ہی ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ فی الحال اس خانوادہ میں کوئی ایسا جوہر قابل نظر نہیں آتا، جو اس سلسلے کو جاری رکھ سکے۔ لیکن اس علاقہ کو شہرت کی بڑی شاہراہ پر ڈالنے والی اصل وجہ مرحوم حکیم محمد عبدالرؤف اور ان کا جانشین بیٹا حکیم ولی اللہ ہے۔ پورے علاقہ میں لوگ انھیں عالمی بانڈہ کلئی صیب کے نام سے جانتے تھے۔ وہ بھی شائد حکیم اجمل خان کی ٹکر کے آدمی تھے، لیکن انھیں وہ مواقع میسر نہیں آئے، پھر یہ کہ افتادِ طبع کی وجہ سے وہ حکمت کو شہرت اور دولت کے حصول کا ذریعہ بنانے سے ازحد گریزاں تھے۔ تقویٰ، سخاوت اور مروت نے ان کی شخصیت میں وہ سحر انگیزی بھردی تھی کہ لوگ پروانوں کی طرح کھینچ کھینچ کے آتے تھے۔ وہ جو کسی نے کہاہے کہ مشک اور عشق چھپائے نہیں چھپتے۔ اس قول کی عالم گیر صداقت کا اندازہ یہاں ہوجاتا ہے۔ ان کی پوری خواہش اور کوشش تھی کہ ان کا کمال کم لوگوں پر کھلے، لیکن ان کی شہرت مشک کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ جتنا ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا گیا اسی قدر انکساری اور خاکساری کی دولت ان کے ہاں بڑھتی چلی گئی۔ سچ ہے درخت پر جتنا زیادہ پھل لگتا ہے، اتنا ہی اس میں انکسار آتا جاتا ہے۔ اس کی شاخیں زمین کی طرف جھکتی چلی جاتی ہیں۔ آسمانوں کو سر پر اٹھانے کے دعویدار ہمیشہ سے ہی بے ثمر رہے ہیں۔ ان سے نہ تو آسمان اٹھتا ہے، اور نہ ہی وہ زمین کے کسی کام آسکتے ہیں۔
نبض شناسی میں انھیں وہ ملکہ حاصل تھا کہ نبض دیکھ کر وہ بتادیتے تھے کہ مریض نے دو دن پہلے کیا کھایا ہے۔ کراچی، لاہور اور پشاور کے اسپتالوں سے مایوس و مردود ہوکر آنے والے کئی مریض ان کی عیسیٰ نفسی سے شفایاب ہوئے۔
ویسے تو ان کے سارے بیٹے حسنِ خلق، کسرِ نفسی اور مروت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ لیکن ولی اللہ جسے انھوں نے بچپن سے ہی حکمت سیکھنے پر لگادیا تھا، ان کا سچا جانشین ثابت ہوا ہے، بلکہ بیٹا باپ سے بھی ’’کورا‘‘ کے مصداق لگتا ہے۔ کئی پہلوؤں سے ان پر بھی بازی لے گیا ہے۔ اس وجہ سے اس کی شہرت ملکی حدود سے آگے نکل کر دوسرے ممالک تک پہنچ گئی ہے۔ چین اور امریکہ تک سے مریض آنے لگے ہیں۔ بالخصوص بلڈ پریشر، بلڈ کینسرکے مریضوں کے لیے تو وہ کسی فرشتۂ رحمت سے کم نہیں۔ بے شمار ایسے لوگ جو ہر قسم کے علاج کے بعد مایوسی کے اندھے کنویں میں پیر لٹکائے موت کا انتظار کررہے تھے، اس کی دوا سے مکمل طور پر شفایاب ہوکر از سرِ نو زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
قدرت کی کیا عجب ستم ظریفی ہے کہ جس جگہ کے نام سے لوگ وہاں کے باشندوں کو چڑاتے تھے، اور بہت تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے پوچھتے تھے: ’’مارتونگ مرنے سے بہتر ہے یا مرنے کے لیے بہتر ہے۔‘‘ اور وہاں کے باشندے اپنے ہونے پر شرمندہ شرمندہ کوئی مناسب جواب ڈھونڈنے کے مشکل مرحلہ کو طے کرنے کے لیے خود کو تیار کرتے تھے۔ آج کوئی دیر نام سن کر بہت سے غم رسیدہ لوگوں کے دلوں پر شفا شعار ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ مایوسی کے تھپیڑوں سے بجھی آنکھیں یہ نام سن کر امیدوں کے کئی ہزار دیے جلانے بجھانے لگتی ہیں، اور مریضوں کے رشتہ دار نئی خوشیوں کے خواب قافلے ساتھ لیے ایک انجان دنیا کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ایک ایسی سڑک پر جو شائد موت کے کنویں پر موٹر سائیکل چلانے والوں کی ٹریننگ کی غرض سے بنائی گئی تھی، لیکن شہروں سے دور ہونے کی وجہ سے استعمال میں لائے جانے سے محروم رہی۔ کئی با اختیار بستی کے رہائشی بھی اس روڈ پر سفر کے امتحان سے گزرے، ہر بار دوا لیتے وقت ان میں سے ہر ایک نے ببانگ دہل دعویٰ کیا کہ واپس جاتے ہی وہ پہلا کام یہی کرے گا کہ اس سڑک کو سڑک بنا دے، لیکن اقتدار اور دولت کے ایوانوں میں رہنے والے بلند بانگ دعوے بالعموم اپنی عادت سے مجبور ہوکر کرتے ہیں۔ جس طرح بہت سے مرغ دن دیہاڑے بھی بانگ دینے سے باز نہیں آتے۔
میرے سامنے بھی جب کوئی اس جگہ کا نام لیتا ہے، تو بے اختیار جی چاہتا ہے کہ کہنے والے کو گلے لگالوں۔ ایک عجیب سی خوشی رگ و پے میں دوڑنے لگتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مَیں نے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ یہاں سے دور گزارا ہے بلکہ اب بھی دور رہنے پر مجبور ہوں۔ جب سال سال کا حساب کرتا ہوں، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پینتالیس سال میں سے صرف دس سال ایسے ہیں جو مَیں نے اپنے اس چھوٹے سے گاؤں ’’شگہ‘‘ میں گزارے ہیں، جو بہت ہی چھوٹا سا ہونے کے باوجود اس علاقہ کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دوبار T20Yکی طرح اس کا محاصرہ کیا گیا۔ اس نے جل کر راکھ ہوجانا قبول کیا، لیکن سرنڈر ہونے کی ذلت کبھی قبول نہیں کی۔
مَیں اس بات پر حیران ہوں کہ مَیں نے جو اتنے بہت سے علاقوں میں وقت گزارا ہے، خوب صورت سے خوب صورت، سر سبز سے سر سبز علاقے دیکھے ہیں۔ اتنے شہروں میں گیا ہوں، اتنی بستیوں نے میرے لیے اپنے دروازے کھولے ہیں۔ میری جسمانی و ذہنی تربیت و تہذیب میں کتنے خطوں نے حصہ لیا ہے، یہ قدم جو ڈگر ڈگر گھومے ہیں، یہ آنکھیں جنھوں نے نگر نگر کا حسن چنا ہے۔ یہ ذہن جو قدیم و جدید علوم کے سرچشموں سے سیراب ہوا ہے۔ یہ دل جس پر کئی وادیوں نے اپنا آپ نچھاور کیا ہے، نہ جانے کیوں چھپ چھپ کر اندر ہی اندر اس چھوٹے سے پہاڑوں میں گھرے ہوئے گاؤں کے لیے تڑپتا رہا ہے؟ تعلیم کہیں اور سے حاصل کی۔ شاعری کے سفر کا یہاں سے بہت دور غریب الوطنی میں آغاز کیا۔ شادی کے لیے کسی اور خطہ نے خود کو پیش کیا۔ دوست احباب ملک کے کئی دیگر حصوں سے انتخاب کیے، لیکن ہمیشہ خوابوں کی محفل اسی نام سے روشن ہوتی رہی۔
وہ جو کسی نے کہا ہے:
ناموں کا اک ہجوم سہی دل کے آس پاس
دل سن کے ایک نام دھڑکتا ضرور ہے
مَیں حیرت سے سوچتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کا ایک جواب تو شاید انگریزی کا یہ مقولہ ہے: ’’فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن۔‘‘ یعنی پہلا تاثر ہمیشہ بر قرار رہتا ہے، یا چوں کہ جنم بھومی وہ جگہ ہے، جہاں آدمی کا دنیا سے پہلا پہلا تعارف ہوتا ہے۔ آسمان سے پہلی ملاقات ہوتی ہے۔ درختوں اور پرندوں سے پہلی پہلی دوستی ہوتی ہے۔ پتھروں سے، مٹی سے، بارش سے، پہاڑوں سے، ندیوں سے، بادلوں سے، چاند تاروں سے اس کا پہلا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ پھر وہ دنیا کے ہر پہاڑ کا اس پہاڑ سے مقابلہ کرتا ہے جسے آنکھ کھولنے کے فوراً بعد اس نے دیکھا ہو، اگر خوش قسمتی سے اس کے گھر کے قریب کوئی دریا بہتا ہو، تو پھر وہ دنیا کے ہر دریا میں اس کا عکس دیکھ کر بے چین ہوجاتا ہے۔
مَیں اس لحاظ سے بے حد خوش نصیب ہوں کہ میرے گاؤں سے آدھ گھنٹا کے فاصلہ پر میں دنیا کے انتہائی خوب صورت دریا کو اپنے طویل سفر پر جاتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔ لاشعور کی گیلری کی کئی دیواریں اس دریا (اباسین) کی مختلف تصویروں سے بھری ہوئی ہیں۔ میری شاعری میں یہ دریا نہ جانے کتنے راستوں سے داخل ہوا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔