مَیں زندگی کے حسیں ضابطے میں ہوں
درود پڑھ رہا ہوں خدا سے رابطے میں ہوں
امجد خاں تجوانہ ایک اُبھرتے ہوئے نوجوان شاعر، بورے والا ٹریکرز کلب کے ایک اہم ممبر اور بہترین ٹریکر ہیں۔ وہ بورے والا شہر کی اُن چنیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی محنتِ شاقہ، آپسی میل ملاپ، حسنِ اخلاق اور شخصی نفاست کے بل بوتے پر اپنا ایک خاص مقام بنایا ہے۔ خاص طور پر شاعری کے میدان میں آج کل ان کا توتی بولتا ہے۔ آہستہ آہستہ اُن کا شہرہ اَب چہار دانگ عالم تک پھیلتا جا رہا ہے۔ اُن کا شمار اب ملک کے بڑے اور نام ور شعرا میں ہونے لگا ہے۔ اب تک اُن کے دو شاعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں، ’’مرے ساتھ نہ چل‘‘ اور ’’مرشد‘‘۔
خالد حسین کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/khalid/
’’مرے ساتھ نہ چل‘‘ پر بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم فل کا ایک عدد تھیسز ہوچکا ہے، جب کہ اُن کے دوسرے شعری مجموعے ’’مرشد‘‘ پر دو تھیسز ہوچکے ہیں۔ ایک راولپنڈی یونیورسٹی سے جب کہ دوسرا خواتین یونیورسٹی وہاڑی سے۔
امجد خاں تجوانہ کی شاعری روایتی حسن و عشق، محبوب کے چاہِ ذقن، جاں لیوا نخروں، قیامت خیز مسکراہٹ، لچکیلی کمریا، مورنی کی چال ڈھال و قاتل اداؤں جیسے لچرپن اور گھسے پٹے موضوعات کے بھنور سے نکل کر نفاست، برجستگی، برمحل و بر وزن، اچھوتے موضوعات اور سوچ کی اُونچی اڑان لیے ہوئے، سادگی، سیلِ رواں کی سی روانگی، جاذبیت اور موسیقیت سے لب ریز ہوتی ہے۔ وہ انسانی فطرت کے اُن پہلوؤں اور موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں جو عام انسان کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
آنکھ مر جائے تو بتا مرشد
پھر یہ سپنے کہاں پہ جاتے ہیں
تنگ دستی جو گھیر لے امجدؔ
پھر یہ اپنے کہاں پہ جاتے ہیں
امجد تجوانہ نے لڈن کے قریب موضع تجوانہ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم لڈن میں حاصل کرنے کے بعد اعلا تعلیم کے لیے بورے والا شہر کی راہ لی اور پھر اسی شہر کے ہولیے۔ وڈیرہ بیک گراؤنڈ ہونے کے باوجود روشن خیالی، عاجزی، دوسروں کا احترام اور نفاست اُن کی شخصیت کا خاصا ہے۔ شہری جھمیلوں سے پرے، وہاں پر کہ جہاں فطرت کی نرم و نازک اور حسین دیوی معصومیت کی چادر اُوڑھے، مدھر اور سریلے گیت گاتی ہے۔ اسی لیے دیہی کلچر اور اس کے رکھ رکھاؤ کی خوش بو ان کی شاعری میں رچی بسی ہے۔ اُن کے موضوعات بھی زیادہ تر انسان اور انسانی رشتوں سے جڑے، فطرت کے عکاس ہیں۔ جن میں وہ اپنی شان دا ر ثقافت کی گم گشتہ میراث کا ذکر کرنا کبھی نہیں بھولتے ہیں۔ وہ لطیف جذبوں کے نفیس شاعر ہیں۔ اُن کی شہرہ آفاق نظم ’’حقہ پینے والے کی یاد میں‘‘ اِس کی زندہ مثال ہے۔
مرزا غالب نے کہا تھا کہ
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکر ہے میرے پاؤں میں کوئی زنجیر نہیں
بعینہٖ تجوانہ بھی ایک درویش منش قسم کے اللہ لوک شخص ہیں۔ وہ فطرتاً ایک ’’ٹپری واس‘‘ ہیں، جو کہیں پر بھی ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے۔ اُن کی زندگی چل سو چل اور سفر در سفر سے مزین ہے۔ اُن کے خاکی بدن میں متلاشی روح کا حلول ہے۔ وہ کبھی کہیں کوئی مشاعرہ پڑھنے جاتے ہیں، کبھی پاکستان کے شمالی علاقہ جات جا پہنچتے ہیں، وہ اُن راستوں پر چلتے ہیں جن پر کوئی نہ چلا ہو، وہ پہاڑوں کے سچے عاشق ہیں، وہ اُن سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ وہاں پر اُن میں بسے باشندوں کے ساتھ گھل مل کر فرحت پاتے ہیں۔ وادئی ہنزہ کی دور دراز اور ذیلی وادی…… وادئی شمشال اور اس کے باسیوں کے رویے اور اس کے حسنِ باکمال سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس کی شان میں پورا قصیدہ کَہ ڈالا: ’’ابھی تم نے شمشال دیکھا نہیں ہے!‘‘ جو وہاں پر بہت مقبول ہوا، اور جسے وہاں کے ایک مقامی گلوکار، جو ہمارے دوست اور معروف ہائی آلٹی چیوڈ پورٹر عبدالجوشی کا ’’برادر اِن لا‘‘ ہے، نے دل کش موسیقی میں سجا کر، بہترین سُر اور لَے میں گاکر، اُس کی شان دار و جان دار ویڈیو گرافی کر کے ہمیشہ کے لیے اَمر کر دیا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
پروین شاکر کا فنی و فکری جائزہ  
احمد فواد کا فنی و فکری جائزہ  
جون ایلیا، شخصیت و فن  
زمانۂ جاہلیت کے ایک شاعر کا اپنی محبوبہ کے نام قصیدہ  
کچھ عوامی شاعر حبیب جالبؔ کے بارے میں  
سکندرِ اعظم کے بارے میں ایک مشہور کہاوت کہی جاتی ہے کہ ’’وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کر لیا۔‘‘
اسی طرح امجد تجوانہ بھی جہاں جہاں جاتے ہیں، اُسے تسخیر کیے جاتے ہیں۔ اُن کی مقناطیسی شخصیت کا یہ اعجاز ہے کہ وہ جس کسی سے ایک بار ملتے ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے اُنھی کے ہوجاتے ہیں۔ وہ حق اور سچ کے ساتھی ہیں۔ منافقت، جھوٹ اور کذب بیانی سے اُنھیں سخت نفرت ہے۔ تلخ سے تلخ بات بشرط یہ کہ سچی ہو، دوسرے شخص کے منھ پر کَہ دیتے ہیں۔ یاروں کے یار ہیں۔
ٹریکنگ کی دنیا میں بھی اُنھوں نے بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ وہ چلتے ہے، توچلتے ہی چلے جات ہیں۔ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔ بس چلتے ہی رہتے ہیں۔ نہ اُنھیں بیرون ہوا کے سرد جھونکے موڑ سکتے ہیں اور نہ گرما گرم دوزخی ہوا کے آگ بگولے توڑ سکتے ہیں۔ نہ وہ بھگو بھگو کر ٹھار دینے والی بارش سے خوف کھاتے ہیں اور نہ اُنھیں بھوکا پیاسا رکھ کر مار دینے والا کوفی رستہ ڈرا پاتا ہے۔ اُن کی کمٹمنٹ کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ وہ سخت گرمی میں دن رات ایک کرکے مسلسل 27 گھنٹے شمشال پاس کا سفر کرکے شمشال جھیل تک پہنچ گئے اور یہ اُن کی زندگی کا پہلا ٹریک تھا۔ ٹریکنگ کے شوقین حضرات جانتے ہیں کہ شمشال پاس ٹریک کا سفر کتنا دشوار ہے۔ جو از حد مشکل تو ہے ہی، یہاں گرمیوں میں سخت گرمی ہوتی ہے اور اس ٹریک پر پینے کا پانی بھی بہت کم یاب ہے۔
اس ٹریک نے اُن کی دنیا بدل کر رکھ دی۔ اس کے بعد اُنھوں نے رش لیک، گودر پاس اور بینک لا جیسے کتنے ہی مشکل ٹریک کر ڈالے ہیں اور مسلسل کرتے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سنولیک کے مشکل ترین اور برفیلے ٹریکس بھی میری ’’وش لسٹ‘‘ پر ہیں، جنھیں مَیں جلد ہی شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
اس کی بہترین شاعری کے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں کہ
تیرے لہجے تری بات سے عشق ہے
مجھ کو بس اک تری ذات سے عشق ہے
تیرے پہلو میں گزرے تھے جو میری جاں
ایک اِک دن سے اور رات سے عشق ہے
راستے منزلیں تو ہیں اپنی جگہ
شہر تو کیا مضافات سے عشق ہے
جس میں اکثر ہی ہم بھیگتے تھے کبھی
گہرے بادل سے برسات سے عشق ہے
پیار سے تو نے امجد بڑھایا تھا جو
اب تلک مجھ کو اس ہاتھ سے عشق ہے
اب ایک اور غزل ملاحظہ ہو:
میرے دن سے مری رات سے منسلک
تو ہے یوں میری ہر بات سے منسلک
تم مجھے چاک پر ہی گھماتے رہو
میں رہوں گا ترے ہاتھ سے منسلک
ان کو ہوتا عطا ہے سبھی کچھ یہاں
جو بھی ہوتے ہیں سادات سے منسلک
ہم نے اپنا یہ دکھ درد اَب تو میاں
کرلیا ہے تری ذات سے منسلک
دوستو مجھ پہ احسان بھی آپ کے
اور بہتان بھی ذات سے منسلک
پھر یہ دنیا بھی جنت سی لگنے لگے
ذات جب ہو کسی ذات سے منسلک
عشق جب ہجر کے راستے پر چلے
آنکھ ہوتی ہے برسات سے منسلک
پھیر لی آنکھ میرے ہی احباب نے
جب ہوا اپنے حالات سے منسلک
عشق ہی سے ہے روشن دلوں کا جہاں
عشق رکھتا ہے صدمات سے منسلک
دیکھتا جب ہے امجد تری آنکھ سے
کیوں نہ ہو پھر یہ نغمات سے منسلک
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔