عموماً نوجوان اپنے دوستوں کے دباو میں آکر فن اور مزے کے لیے کسی بھی نشے کو کرتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے وہ نشہ اُن کی عادت بن جاتا ہے۔
ایسے ہی ایک نوجوان نے کہا کہ دوست کی درخواست پر کیے جانے والے نسوار کے نشے سے وہ جان چھڑانا چاہتے ہیں، لیکن اُن سے نہیں چھوٹ رہی۔ وہ دوست محترم خود تو اُس لت سے آزاد ہوچکے، لیکن یہ نوجوان آج بھی پھنسے ہوئے ہیں اس کے شکنجے میں۔ نشے کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کچھ ہی عرصے میں آپ کا ذہن نشے کو برداشت کرنا (Tolerance) سیکھ لیتا ہے۔ اَب آپ کو نشے میں مزا نہیں آرہا ہوتا، لیکن آپ سے لت چھوٹ بھی نہیں رہی ہوتی۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ لت سے جان جلدی چھڑا لیتے ہیں…… لیکن کچھ لوگوں کو بہت دقت ہوتی ہے؟
پہلے میں آپ کو ذہن کی فطرت کے متعلق بتاؤں گی، اور پھر اس قسم کی لت سے آزاد ہونے کی تکنیک۔
آپ کے ذہن کی فطرت ہے کہ وہ نئی چیزوں کو آزمانا پسند کرتا ہے۔ اسے مزہ آتا ہے تسخیر کرنے میں اور خاص کر جہاں ’’پلیژر‘‘ (Pleasure) ہو، انعام ہو، ڈوپامین (خوشی کا ہارمون) ہو، یہ وہاں پایا جاتا ہے۔ اس رویے نے ارتقائی (Evolutionary) اعتبار سے بہت فائدہ دیا ہے، لیکن فطرت میں کوئی بھی چیز اکیلے نہیں آتی، بلکہ اپنے ساتھ ایک مرکب لے کر آتی ہے…… جس میں مثبت کے ساتھ منفی بھی ہوتا ہے۔ اگر ذہن کی فطرت نے ہمیں فائدہ دیا، لیکن اگر آپ نے اس کو عقل (Frontal Lobe) سے کنٹرول نہیں کیا، تو پھر آپ کسی ایسی چیز کو بھی تسخیر کرنے نکل سکتے ہیں، جسے تسخیر کرنے کے بعد نارمل حالت میں واپس آنا آپ کی سکت سے باہر ہو۔ جیسا کہ کوکین، ہیروئن یا کوئی بھی ایسا نشہ جس سے ایسا خطرناک ’’پلیژر‘‘ ملے کہ اس کا درد پھر آپ سہنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں اور اس لت میں مبتلا ہوجائیں۔ کیوں کہ پلیژر اور درد دونوں الگ الگ نہیں، بلکہ ایک پیکیج میں آتے ہیں۔ ایک کو محسوس کروگے، تو دوسرا بھی اپنا جلوہ دکھائے گا۔
ہر انسان کا ذہن مختلف ہوتا ہے۔ ایسا نیورو سائنس دان ’’لیزا فیلڈمن‘‘ کہتی ہیں۔ کم، درمیانہ اور تیز۔کسی کا ذہن بہت حساس ہوتا ہے، کسی کا کم، تو کسی کا بہت مضبوط۔ مَیں خود بہت حساس ہوں اور یہی وجہ ہے کہ خود کو جانتے ہوئے اور اپنی اوقات میں رہتے ہوئے مَیں زیادہ پلیژر والی چیزوں سے اجتناب برتتی ہوں۔ ایسے ہی اپنے ذہن کی سکت دیکھیں کہ کتنا مضبوط ہے اور کتنا کنٹرول میں ہے! اگر آپ حساس ہیں، تو پھر سوچ سمجھ کر نئی چیزیں آزمائیں اور اپنا ماحول اپنے مطابق تشکیل دیں۔ کیوں کہ عادت بنانے میں چند دن، تو ختم کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ اپنی انفرادیت کو معلوم کریں اور پھر اسے قبول کریں۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ ہر قسم کا نشہ کرکے ترک کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور کچھ لوگ زیادہ جد و جہد کرتے ہیں نشہ چھوڑنے میں۔ البتہ اس میں ٹروما کا بھی کردار ہوسکتا ہے۔
ایسی عادتوں کو ختم کرنے میں ’’ارج سرفنگ‘‘ (Urge Surfing) آپ کی مدد کرسکتی ہے۔ کیسے……؟ جب بھی آپ کو طلب آئے، تو آپ نے اس طلب پر سمندر کی لہروں کی طرح سرفنگ کرنی ہے۔ آپ نے کھیلنا ہے اپنی طلب کے ساتھ۔ آپ کو ذہن کی فطرت کا تو علم ہے کہ اسے نئی نئی چیزیں پسند ہیں، تو اس بار آپ نے اس کی اسی فطرت کا اس کے خلاف استعمال کرنا ہے۔ آپ کا ذہن زیادہ دیر کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں سوچ سکتا، یہ بور ہوجاتا ہے اور بوریت اس سے برداشت نہیں ہوتی۔ جب بھی یہ طلب اُجاگر کرے، آپ نے اُس طلب کو محسوس کرنا ہے، اُسے برداشت کرنا ہے اور اس کے آگے ہار نہیں ماننی۔ آپ کا ذہن تھوڑی دیر میں بور ہوکر بھول جائے گا۔
ذہن زیادہ دیر پریشان نہیں کرسکتا، کیوں کہ یہ بور ہوجاتا ہے۔ بالکل کسی چھے سات سالہ بچے کی مانند، جب وہ روتا ہے کہ ابا مجھے فُلاں کھلونا چاہیے، لیکن ابا نہیں لاکر دیتے۔ بچہ روتا ہے، چلاتا ہے، تنگ کرتا ہے، جذباتی طور پر بلیک میل کرتا ہے، لیکن جب کوئی اُس کے رونے پر توجہ نہیں دیتا، تو تھک کر چپ ہوجاتا ہے ۔ بس ایسا ہی آپ کا ذہن بھی ہے، ایک چھے سات سال کے بچے کی طرح۔ آپ نے اس کی بات نہیں ماننی۔ یہ آپ کو ایسے ایسے مکالمے اور دلائل لا کر دے گا، اس طرح سے آپ کو محسوس کروائے گا کہ جیسے اگر یہ نشہ نہیں کیا، تو آپ مر جائیں گے ، آپ سے کوئی کام نہیں ہوپائے گا……! لیکن آپ نہیں مریں گے۔ ذہن ایسا کرتا ہے، یہ اس کی فطرت ہے۔
یہ ایک بار سے نہیں ہوتا۔ آپ کا ذہن دوبارہ نشہ کی جانب جاتا ہے۔ آپ کو طلب محسوس ہوتی ہے۔ بالکل ویسے جیسے کچھ دیر بعد ابا کو دیکھ کر بچہ دوبارہ رونا شروع کردیتا ہے کہ کھلونا چاہیے…… لیکن آپ نے دوبارہ سرفنگ کرنی ہے، آنے دینا ہے خیالات کو، لیکن اُن خیالات/ طلب پر عمل نہیں کرنا۔
یہ مشکل نہیں، بلکہ بہت مشکل ہے۔ اپنے ذہن کے ساتھ طلب کی لہروں پر سرفنگ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اگر نشہ سے نجات چاہیے تو کرنا پڑے گا۔ پریکٹس ہے، وقت لگے گا اور یوں آپ کی طلب آپ کے کنٹرول میں آنا شروع ہوجائے گی۔
یاد رکھیے کہ ذہن کسی ایک طلب یا بات پر زیادہ دیر ٹکا نہیں رہ سکتا۔ اس لیے اس کی اس فطرت کا فائدہ اُٹھائیں اور اِسے بور ہونے دیں۔ اس کی تربیت کرنا بہت ضروری ہے۔ اپنے ذہن کو اور اپنی سکت کو سمجھیں۔ اگر آپ کا دوست کوئی کام بہت آسانی سے کررہا ہے، تو ضروری نہیں کہ آپ بھی کرلیں۔ آپ اُس سے مختلف ہیں۔ اِس تکنیک کا استعمال آپ کسی بھی عادت کو چھوڑنے میں کرسکتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔