پشاور سے شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار مورخہ یکم فروری 2018ء نے اپنے صفحہ نمبر 8 پر یہ خبر شائع کی ہے کہ ایکسائز کے اہلکاروں نے دو ہزار کلو گرام بھارت سے پشاور سمگل ہونے والا گوشت موٹر وے ٹول پلازہ پر پکڑا ہے اور مبینہ ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ خبر کے مطابق یہ گوشت بھارت کے صوبے اتر پردیش سے لایا گیا تھا۔
حرام اشیا کی ہماری مارکیٹ میں در آمد کی یہ پہلی خبر نہیں ہے۔ چند سال پہلے سپریم کورٹ نے مچھلیوں یا مرغیوں کی در آمد شدہ خوراک کو سمندر میں پھینکنے کے احکامات اس لیے دیے تھے، کیوں کہ اُس خوراک میں سوروں کی چربی اور آلائشیں استعمال ہوئی تھیں۔
بھارت بُت پرست سیکولر ملک ہے لیکن وہاں کے ہندو، مذہبی پابندی کے تحت گوشت کھاتے ہیں اور نہ اُسے ہاتھ لگاتے ہیں۔ مسلمان چوں کہ گوشت خور ہیں، چناں چہ ہندو لوگ عموماً اُن کے ساتھ بر سر پیکار رہے ہیں۔ اس لیے بھارتی مسلمان گوشت بنانے اور استعمال کرنے میں بہت محتاط ہوتے ہیں۔ وہ وہاں پر مغلوب ہیں، اس لیے وہ تجارتی پیمانے پر گوشت نہیں بناسکتے کہ اُسے پڑوسی ممالک کو فروخت کریں۔ اس لیے گوشت کا یہ کاروبار ہندو مذاہب سے باغی یا باہر کے طاقتور مافیے کرتے ہوں گے۔ غالباً پاکستان کا بھارت سے گوشت کی تجارت کا کوئی معاہدہ بھی نہیں ہے۔ شاید چند ماہ ہوئے ہیں پنجاب میں کسی چیمبر آف کامرس نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ حرام اجزا کی ملاوٹ کی وجہ سے بھارت سے مرغیوں کی خوراک درآمد نہ کی جائے۔ ان خبروں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم شک کرسکتے ہیں کہ بھارت سے لائے جانے والے گوشت کے حرام ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ بھارت میں (پاکستان میں بھی) چوڑے چمار نامی قوم موجود ہے، جو اپنی غربت کی وجہ سے گندی زندگی گزارتے ہیں۔ یہ لوگ گوشت خور ہوتے ہیں لیکن غیر مسلم ہوتے ہیں۔ اس طرح دوسری گوشت خور غیر مسلم اقوام بھی بھارت سمیت دنیا بھر میں موجود ہیں۔ بھارت میں وہ قومیں بھی گوشت کا کاروبار کرسکتی ہیں جب کہ مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ وہ صحت مند حلال جانور کو اہتمام کے ساتھ اللہ کا نام لے کر ذبح کریں، جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ پڑھا گیا ہو، وہ مسلمانوں کے لیے حرام ہوتا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ بھارت یا کسی اور ملک سے لائے جانے والے گوشت کو شریعت کے مطابق بنایا گیا بھی ہے کہ نہیں؟

درآمد شدہ گوشت ہمیشہ مشکوک ہوتا ہے۔ (Photo: Pakistan Today)
گوشت کی زیادہ پیداوار کے لیے سور ایک مشہور جانور ہے۔ قرآن شریف نے اسے حرام قرار دیا ہے جب کہ غیر مسلم اقوام اسے باقاعدہ طور پر پالتی ہیں اور وسیع پیمانے پر اس کے گوشت کو کھاتی ہیں۔ بیرونِ ملک اسفار کرنے والے مسلمان اس خباثت سے بہت مشکل سے بچتے ہوں گے۔ بیرونی ممالک سے درآمد یا سمگل شدہ حجامت کے برش، سؤر کے بالوں سے بنائے گئے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ یہ بال گیلے ہونے پر نرم نہیں ہوجاتے۔ مسلمان بے دھڑک اپنے چہروں پر اس حرام برش کو استعمال کرتے ہیں۔ کباڑ کے جوتے اور چمڑے کے بلاؤز میں سؤر کی کھال کا استعمال رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح مختلف اشیا میں اس کی چربی بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ بہترین بات ہوگی اگر مسلمان تاجر سمگلنگ چھوڑ دیں اور بیرونی ممالک کے ساتھ قانونی تجارت کریں۔ تو ان حرام چیزوں سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے۔ آپ کو کیا معلوم کہ آپ اپنے بدن اور چہرے پر جو چکنائی ملتے ہیں۔ اس میں حرام چربی نہیں؟ بیرونی ممالک سے لائے گئے بند ڈبوں والی خوراک میں ان مردار اشیا کا استعمال اگر نہ بھی ہو، تو کلمہ پڑھ کر اسلامی طریقہ سے ذبح کرنی والی شرط تو یقینا نہیں پوری ہوتی ہوگی۔
ہمارے اپنے قصائی اور مرغی فروش لوگوں میں سے بعض ذبح کرتے وقت احتیاط نہیں کرتے۔ اس طرح بڑے پیمانے پر مرغیوں اور جانوروں کے ذبح کرتے وقت اسلامی شرائط بہت مشکل سے پوری ہوتی ہوں گی۔ اس لیے اُس خوراک یا مرغی وغیرہ سے پرہیز کرنا چاہیے جو آپ کے سامنے ذبح نہ ہوئے ہوں۔ ہماری مارکیٹوں میں جنرل سٹوروں سے ڈبہ بند مرغیوں کا گوشت یا بنا ہوا کھانا مشکوک ہوتا ہے۔ اس لیے اُس کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ اگر ایک کارخانہ ایک ہزار مرغیوں کو پکا ہوا فروخت کرنا چاہے اور ہم ایک مرغی کے اسلامی طریقے سے ذبح اور صاف کرنے کے لیے صرف تین منٹ فرض کرلیں، تو ایک ہزار مرغیوں پر پچاس گھنٹے کا وقت لگے گا، یعنی پورے دو دن اور کارخانہ دار زیادہ افراد اس کام پر لگانے کی جگہ صرف ایک مشین لگانا زیادہ منافع بخش پاتا ہے جو چند سیکنڈ میں ایک ہزار مرغیوں کو مار کر صاف کرکے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ اس طریقے میں اسلام کی شرائط پوری نہیں ہوتیں۔ کاروباری حضرات میں بہت کم حلال اور حرام کا خیال کرتے ہیں۔ اُن کو چھوڑ کر باقی ماندہ مختلف طریقوں سے حرام خوری کرتے ہیں۔ الراشی و المرتشی کو تو نبی کریمؐ نے اہلِ دوزخ قرار دیا ہے۔ رشوت ناجائز کام کے لیے دی اور لی جاتی ہے۔
ہم غلامانِ نبی آخری الزمانؐ ہونے کے زعم میں یہ فریاد عموماً کرتے ہیں کہ بے برکتی ہے، بیماریاں اور مصائب ہیں اور ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں، تو سوچیے کہ جب پیٹ کے اندر بھی حرام ہو اور باہر بھی حرام ہو، تو دعائیں کیسے قبول ہوں گی، برکت کس طرح پیدا ہوگا؟ جب خود غرضی ہر کام پر مقدم ہو، تو اللہ کیوں رحم فرمائے گا؟
……………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔