چند برس پہلے مجھے ہوائی جہاز کے ذریعے لندن سے کراچی اور پھر کراچی سے ٹرین یعنی ریل گاڑی کے ذریعے بہاول پور جانے کا موقع ملا۔ ٹرین جیسے ہی کراچی اسٹیشن سے روانہ ہوئی، تو میری ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے بزرگ نے مجھ سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کہاں جا رہے ہو، کیا کرتے ہو، شادی ہوئی ہے یا نہیں، کتنے بہن بھائی ہو، والد صاحب کیا کرتے ہیں؟ ان غیر ضروری سوالات کے جوابات سننے کے بعد ان بزرگ کو اندازہ ہوا کہ میں ان کے کسی کام نہیں آسکتا، تو انہوں نے مزید بات چیت کی ضرورت محسوس نہ کی۔ یہ صاحب رحیم یار خاں اسٹیشن پر اتر گئے اور میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک نوجوان مسافر آ کر بیٹھ گیا۔
ریل گاڑی چلنے کے کچھ دیر بعد اس نوجوان نے بھی مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ مَیں نے جب بتایا کہ بے روزگار ہوں اور نوکری کی تلاش میں ہوں، تو یہ صاحب منھ دوسری طرف کر کے بیٹھ گئے اور مزید کوئی سوال کر کے اپنی معلومات میں اضافہ کرنے سے باز آ گئے۔ مَیں نے اس سفر کے بعد غور کیا کہ آخر پاکستان میں سفر کے دوران میں اجنبی لوگ ایک دوسرے سے ذاتی نوعیت کے سوال کیوں کرتے ہیں، ان سوالات کے جوابات سے انہیں کیا حاصل ہوتا ہے؟ اس طرح کے سوالات اور انٹرویو سے لوگ دوسرے کی حیثیت کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں، تاکہ یہ جانچ سکیں کہ کوئی ان کے کسی کام آسکتا ہے یا نہیں۔
مجھے گذشتہ 26 برس کے دوران میں لندن میں رہتے ہوئے دو درجن سے زیادہ ممالک میں جانے اور گھومنے پھرنے کا موقع ملا ہے۔ کئی ملکوں میں مجھے بار بار جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاز، ٹرین اور کوچ کے ذریعے سفر کے دوران میں ایسے ایسے دلچسپ واقعات میرے مشاہدے میں آئے جن کی کچھ تفصیلات میں اپنے سفرناموں میں بیان کرچکا ہوں۔ امریکہ، کینیڈا، افریقہ اور یورپ کے مختلف ملکوں میں جاتے ہوئے مجھے درجنوں بار اکیلے سفر کرنا پڑا۔ میرا طویل ترین براہِ راست ہوائی سفر لندن سے لاس اینجلس 12 گھنٹے اور لندن سے ماریشیس 13 گھنٹے کا تھا۔ مجھے ٹرین کے ذریعے نیویارک سے ٹورانٹو تک جانے کا بھی موقع میسر آیا۔ اس سفر کا دورانیہ بھی دس گھنٹے سے زیادہ کا ہے۔
دنیا بھر میں سفر کے دوران میں شاید ہی کوئی ایسا موقع آیا ہو کہ میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھی کسی خاتون یا مرد نے گفتگو شروع کی ہو اور سفر کے اختتام تک ذاتی نوعیت کے سوالات کی بوچھاڑ سے زِچ کر کے رکھ دیا ہو۔ مغربی دنیا اور خاص طور پر برطانیہ میں عام لوگوں کو دوسرے لوگوں کی زندگی میں جھانکنے کی کرید نہیں ہوتی۔ بلاوجہ کسی کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھ گچھ اور سوال و جواب کو خلافِ تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ سفر کے دوران میں پاکستان میں اجنبی ہم سفر جس بے تکلفی سے ذاتی نوعیت کے سوال کرتے ہیں، اگر برطانیہ میں کوئی ایسا کرے تو نہ صرف اس کا برا منایا جاتا ہے بلکہ اس طرح کے سوالات کو معاشرتی آداب اور شخصی آزادی کے منافی تصور کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں پرائمری سکولوں ہی سے بچوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی ذاتی زندگی اور معاملات یعنی ’’پرسنل لائف‘‘ اور ’’پرسنل میٹرز‘‘ کا احترام کریں۔بلاوجہ کسی دوسرے کے ذاتی امور کے بارے میں تجسس میں مبتلا نہ رہیں۔
برطانیہ میں حکومت نے معاشرتی نظام کو اس منظم طریقے سے ترتیب دے کر جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کر رکھا ہے کہ عام شہری کو اپنے کسی بھی کام کے سلسلے میں کسی قسم کی سفارش یا کسی افسر سے تعلقات کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ وہ کسی سے اس لیے تعلقات استوار کرنے کی جستجو میں رہتا ہے کہ کام پڑنے پرکل کو کوئی تعلق دار اس کے کام آ سکتا ہے۔
یونائیٹڈ کنگڈم میں کسی کو اپنا کوئی بل بھرنے، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس بنوانے یا ان کی تجدید کروانے، بینک اکاؤنٹ کھولنے، گھر خریدنے کے لیے مارگیج یا قرض لینے، بجلی یا گیس کے کنکشن کے حصول، جہاز، ریل گاڑی یا کوچ سے سفر کے لیے ٹکٹ کی خریداری، لینڈ رجسٹری، پارکنگ پرمٹ حاصل کرنے، کسی بھی محکمے سے کسی بھی قسم کے ریکارڈ کے حصول اور اسی طرح کے کسی اور کام کے لیے کسی سرکاری دفتر میں نہیں جانا پڑتا، سب کام آن لائن یا ڈاک کے ذریعے خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹا دیے جاتے ہیں۔ اس لیے برطانیہ میں لوگوں کی اکثریت اپنے کام سے کام رکھتی ہے، اور اپنے ہمسایوں سمیت کسی کے ذاتی معاملات میں بلاوجہ اور بلاجواز مداخلت کو معیوب سمجھتی ہے۔
برطانوی معاشرے کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں ایک دوسرے کی ذاتی زندگی کی رازداری کا احترام کیا جاتا ہے۔ سوا چھے کروڑ آبادی پر مشتمل ’’گریٹ بریٹن‘‘ کو سیاست دان یا کوئی سیاسی حکومت نہیں چلاتی بلکہ اس معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق وضع کردہ ایک نظام یعنی ’’ویلفیئر سسٹم‘‘ چلا رہا ہے۔ جو سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے، وہ اس معاشرتی نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ اس ملک میں علاج معالجے اور تعلیم کی سہولت ہر ایک کے لیے مفت ہے۔ کسی برطانوی شہری کو اپنی صحت اور علاج کے لیے اور کالج تک اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اپنی جیب سے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا جس کی بنیادی وجہ اس ملک میں ٹیکس کے نظام کو مربوط اور مؤثر ہونا ہے جس کی تفصیل کچھ عرصہ پہلے میں اپنے ایک کالم میں بیان کر چکا ہوں۔ ہمارے وہ اوورسیز پاکستانی اور کشمیری بھائی جو گذشتہ کئی دہائیوں سے برطانیہ میں آباد ہیں، ان میں سے بہت سے آج بھی پاکستان اور کشمیر سے آنے والے سیاست دانوں، وزیروں، بڑے سرکاری عہدیداروں اور اربابِ اختیار سے اپنے تعلقات استوار کرنے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ ہوائی اڈے پر ان کے استقبال، ان کے قیام و طعام، خاطر مدارت اور تحفے تحائف کے ذریعے انہیں خوش کرنے کی جستجو میں بہت سے اوورسیز خوشحال پاکستانیوں اور کشمیریوں کو خوار ہوتے دیکھا گیا ہے۔ ان میں سے اکثریت ان تارکینِ وطن کی ہے جنہوں نے پاکستان یا کشمیر میں کوئی سرمایہ کاری کر رکھی ہے یا کوئی پلاٹ اور گھر خرید رکھا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں اور حکومتی عہدیداروں سے اس لیے تعلقات بنا کر رکھنے چاہئیں کہ کل کو ضرورت پڑنے پر وہ پاکستان میں ان کے کام آئیں گے۔ یہ بھی ایک طرح کی خام خیالی ہے۔ ایسے ہزاروں تارکینِ وطن جن کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے یا کوئی جائیداد خریدنے کے بعد کسی بھی طرح کے مسئلے کا سامنا ہوا، تو کوئی سیاست دان، وزیر، سفیر یا سرکاری عہدیدار ان کے کام نہیں آیا اور انہیں اپنا جائز کام بھی رشوت دے کر کروانا پڑا۔ تلخ تجربات کے بعد تارکینِ وطن کی اکثریت اب پاکستان میں مزید سرمایہ کاری سے تائب ہو چکی ہے۔ ایسے اوورسیز پاکستانی جو دوسروں کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کر کے پاکستان میں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری سے باز رہے، وہ کسی پاکستانی سیاست دان، حکمران یا حکومتی عہدیداروں کی خاطر مدارت کے چکر میں نہیں پڑتے اور نہ انہیں کسی کام کے سلسلے میں ایسے بے فیض اربابِ اختیار سے تعلقات بنانے کی ضرورت ہی محسوس ہوتی ہے۔
برطانیہ اور پاکستان میں بنیادی فرق ’’سسٹم‘‘ یعنی نظام کا ہے۔ برطانوی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی اس ملک کے اداروں اور سسٹم کی مرہونِ منت ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آ جائے وہ اپنے ملک کے اداروں اور سسٹم کو کمزور نہیں ہونے دیتی بلکہ اپنے دورِ حکومت میں انہیں مزید مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ اسی لیے برطانوی سیاست دان ایک حد تک بے اختیار اور ادارے بااختیار اور عوامی حقوق کے محافظ ہیں، جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ تو کسی سسٹم کو مستحکم کیا گیا اور نہ کسی ادارے کو مضبوط ہی ہونے دیا گیا۔ سیاست دان، حکمران اور اسٹیبلشمنٹ ہی ہر طرح کے اختیارات اور طاقت کا منبع ہے۔ ملک کے وسائل پر قابض طبقہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ ملک میں اداروں اور سسٹم کو استحکام ملے،اختیارات ان کی گرفت سے نکل کر اداروں کے پاس چلے جائیں اور انہیں برطانوی سیاست دانوں کی طرح محض اپنے پارلیمانی حلقہ کے عوام کی فلاح وبہبود اور پارلیمنٹ میں قانون سازی تک محدود ہونا پڑے۔
ہمارے ملک کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کی اکثریت کو اختیارات کا خون منھ لگ چکا ہے، وہ کسی بھی صورت اداروں کو مستحکم اور سسٹم کو مضبوط کرنے کے لیے انہیں بااختیار نہیں ہونے دیں گے۔حکومت میں آنے سے پہلے ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے، اداروں کو بااختیار اور مستحکم کرنے کے دعوے ہر سیاست دان کرتا ہے لیکن اقتدار سنبھالتے ہی اس کی ترجیحات بھی ویسی ہو جاتی ہیں جو اس سے پہلے حکمرانوں کی رہی ہوتی ہیں اور بیچارے بے بس عوام پھر سے کسی نجات دہندہ کی راہ دیکھنے لگتے ہیں۔
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
برطانیہ کو حکومت نہیں سسٹم چلا رہا ہے
