وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

گذشتہ دِنوں پاکستان کے سب سے اعلیٰ نوکریوں کے امتحان ’’سی ایس ایس‘‘ کے نتائج کا اعلان ہوا۔ سی ایس ایس 2019ء کے امتحان کے لیے کل 23 ہزار 234 امیدواروں نے داخلہ لیا تھا، جب کہ 14 ہزار 521 امیدواروں نے امتحان میں حصہ لیا، جن میں سے صرف 372 ہی پاس ہوئے۔ یوں کامیابی کا تناسب صرف 2.56 فیصد بنتا ہے۔ ان کامیاب ہونے والے امیدواروں میں راولپنڈی کی رہائشی ضحی ملک شیر بھی شامل ہیں، جن کی چار بڑی بہنیں پہلے ہی ’’سی ایس ایس‘‘ پاس کرکے مختلف سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ پانچ بہنوں میں سب سے بڑی بہن لیلیٰ ملک شیر نے 2008ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا، اور وہ اس وقت کراچی میں بورڈ آف ریونیو میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہیں۔ دوسری بہن شیریں ملک شیر نے 2010ء میں سی ایس ایس پاس کیا، اور اِس وقت وہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی اسلام آباد میں ڈائریکٹر ہیں۔ اِسی طرح 2017ء میں سسی ملک شیر اور ماروی ملک شیر نے سی ایس ایس کے امتحان میں حصہ لیا، اور دونوں پاس ہوگئیں۔ سسی سی ای اُو لاہور کنٹونمنٹ میں زیرِ تربیت ہیں، جب کہ ماروی اسسٹنٹ کمشنر ایبٹ آباد ہیں۔ جمعرات کو ان کی سب سے چھوٹی بہن ضحی نے بھی یہ امتحان پاس کرکے ممکنہ طور پر پاکستان میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرلیا۔ ضحی کے والد محمد رفیق اعوان واپڈا میں ملازمت کرتے ہیں، اور ان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن کے تربیلا شہر سے ہے۔ وہ کئی سال پہلے ملازمت کے سلسلے میں راولپنڈی منتقل ہوگئے ہیں۔
ضحی نے کہا کہ میں نے اپنے والد سے سیکھا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنی کمزوری کو ہی اپنی طاقت بنائے، تو کچھ مشکل نہیں ہوتی۔ لوگوں نے میرے والد سے پانچ بیٹیوں کی پیدائش پر افسوس کا اظہار کیا، مگر آج ثابت ہوگیا کہ وہ لوگ غلط تھے۔ آج میرے والد کے پاس طاقت ہے۔ کیوں کہ ان کی بیٹیاں با اختیار اور بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ آج ہم بہنیں پورے پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں۔
ان پانچ بہنوں کی اس شان دار کامیابی اور ملک کی تاریخ میں ایک منفرد ریکارڈ قائم کرنے میں اُن لوگوں کے لیے ایک پیغام اور لمحۂ فکریہ ہے، جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اور بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کی پیدائش پر زیادہ خوشی مناتے ہیں۔ اکثر اوقات تو بات اِس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ پدر سری معاشرے کا المیہ ہی یہی ہے کہ یہاں سارا اختیار اور ساری توجہ بیٹوں کو ہی دی جاتی ہے اور بیٹیوں کو بوجھ سے کم تصور نہیں کیا جاتا۔ دوسری طرف اسلام کے سارے اصول بھی عورت کے ارد گرد گھمائے جاتے ہیں۔ مرد خود مذہب کے اصولوں پر چلے یا نہ چلے، لیکن عورت کے لیے ضروری ہے کہ ان اصولوں پر مِن و عَن عمل کریں جن سے پدر سری نظام کو تقویت ملے اور مرد کی انا کو تسکین۔
مذہب کے بعد پاکستان اور خاص کر پشتون معاشرے کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ یہاں معاشرے کے بعض اصول بھی صرف عورت کی ذات کے گرد گھمائے جاتے ہیں۔ مرد خواہ کتنی بھی پشتون ولی کی روایات سے گرے ہوئے کام کرے، لیکن عورت کبھی ایسا کام نہیں کرسکتی، جو بقول اُن کے پشتون معاشرے کے اُن اصولوں کے خلاف ہوں جو مردوں نے وضع کیے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور خاص کر پشتون معاشرے میں عورت کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، لیکن عزت کا سرچشمہ بھی تو صرف عورت کی ذات کو بنایا گیا ہے۔ اگر مرد کوئی ایسا کام کرے جو معاشرے میں غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہو، تو اُس سے مرد کے کردار اور مستقبل پر اتنا خاص اثر نہیں پڑتا، لیکن اُسی نوعیت کا کام اگر عورت کرے، تو اُس کے مستقبل کا مسئلہ بن جاتا ہے، اور وہ کام موت تک اُس کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔
دنیا کی تاریخ کو چھوڑ کر اگر صرف پاکستان کی تاریخ اور حال پر نظر دوڑائی جائے، تو ایک سے بڑھ کر ایک عورت آپ کو نظر آئے گی جس نے اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کا نام روشن کردیا، جن میں اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے لے کر دنیا کی کم عمر نوبل انعام جیتنے والی ملالہ یوسفزئی شامل ہیں۔ اسی طرح دنیا کی کسی بھی تحریک پر نظر ڈالی جائے، تو وہ عورتوں کے کردار کے بغیر نامکمل نظر آئے گی۔
قارئین، یہ بات بھی اکثر سننے کو ملتی ہے کہ عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں جو کہ ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں، اور کوئی بھی گاڑی پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی عورت کو گاڑی کا ایک ضروری پہیہ سمجھا ہے؟ یا ہم عورت کو اُس زائد پہیے کی طرح سمجھتے ہیں جو صرف پنکچر ہونے کی صورت میں استعمال میاں لایا جاتا ہے؟
ہمیں اکثر یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ کامیاب عورتوں کی اتنی کم تعداد کے پیچھے کہیں مرد کا ہاتھ تو نہیں؟ اگر ہم نے مردوں کی کامیابی کے لیے اتنے اونچے معیار رکھے ہیں، تو کیا عورتوں کے لیے کامیابی اور اُس کا کوئی معیار رکھنا کون سا گناہ ہے؟ کیا گھر میں بیٹھی وہ عورت ناکام نہیں جو کھانا پکانے، کپڑے دھونے، بچے پیدا کرنے اور بچے پالنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی، اور کیا اُس کی ناکامی کا ذمہ دار اُس گھر کا مرد نہیں ہے؟
اکثر اوقات یہ بات بھی سننے کو ملتی ہے کہ سیگرٹ پینے سے مرد کے پھیپھڑے اور عورت کا کردار خراب ہوجاتا ہے۔ پتا نہیں مرد کا کردار نہیں ہوتا یا پھر عورت کے پھیپھڑے نہیں ہوتے؟ یہ بات ہمارے معاشرے اور ہمارے منھ پر کسی طمانچہ سے کم نہیں۔ کیوں کہ ہم نے ہر چیز کو عورت کے کردار سے جوڑا ہوا ہے۔ حالاں کہ اُس اعتبار سے زیادہ بدکردار ہم مرد خود ہی ہیں۔
جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ سیاست میں اُس کی بہن حصہ لیتی تھی، تو بیسویں صدی کے پشتونوں کے سب سے بڑے رہنما اور مصلح عبدالغفار باچا خان بابا بھی عورتوں کو معاشرے میں برابری کے ذاتی، سیاسی اور سماجی حقوق دینے کے حق میں تھے۔ اس کے لیے بھرپور کوشش کرتے تھے۔ باچا خان بابا اپنے سیاسی جلسوں میں عورتوں کی شمولیت کو اچھا سمجھتے تھے، اور عورتوں کے علیحدہ جلسے بھی منعقد کراتے تھے۔ ایک جگہ پر باچا خان بابا نے کہا تھا کہ’’اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایک قوم کتنی مہذب ہے، تو دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنی عورت سے کیسا سلوک کرتے ہیں!‘‘
اگر کسی کو اپنے گھر، معاشرے اور ملک کی ترقی اور اصلی خوشحالی چاہیے، تو اُس کو چاہیے کہ بیٹیوں کو بیٹوں سے کم تر نہ سمجھیں۔ کیوں کہ ذہانت، ہمدردی، محنت اور محبت وغیرہ میں یہ بیٹوں سے چار ہاتھ آگے ہوتی ہیں، اور یہ گھر، معاشرہ اور ملک حتیٰ کہ دنیا کو ہماری سوچ سے بھی زیادہ آگے لے جاسکتی ہیں۔ بشرط یہ کہ اُن کے پروں کو نہ کاٹا جائے، بلکہ اُن کو پرواز کرنے میں مدد دی جائے۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔