گذشتہ سال ماہِ مئی میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، اُمیدِ سحر‘‘ کا اختتام ان سطور سے کیا تھا: ’’جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی صورت میں اِک نئی اُمیدِ سحر پید ا ہوئی ہے کہ ایک ایسا جج جو تاریخ کو سامنے رکھتا ہے اورہمیشہ تاریخ سے سبق سیکھنے کا درس دیتا ہے۔ مستقبل میں ہمیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے یہ اُمید بھی رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے پیش رو جسٹس افتخار چوہدری اور بابا رحمتا ثاقب نثار کی طرح اندھا دھند جوڈیشل ایکٹو ازم سے پرہیز کریں گے۔ کیوں کہ ماضی میں چیف جسٹس کے عہدہ پر براجمان ہوکر کئی افراد اپنے آپ کو آئین و قانون سے ماورا اور عقلِ کُل سمجھتے رہے ہیں۔‘‘
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
الحمداللہ آج چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر جناب قاضی فائز عیسیٰ ہرگزرتے دن کے ساتھ اک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے تاریخ میں ہر آمر کے سامنے سرنگوں ہونے والوں میں اعلا عدلیہ کے جج صفِ اول میں شامل رہے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ آمروں کو جوازِ حکومت بخشنے کے لیے نت نئے قانونی جواز بھی معزز جج مہیا کرتے رہے ہیں۔ غیر منتخب اور غیر سیاسی ڈکٹیٹروں کے منتخب حکومتوں پر شب خون کو آئینی و قانونی تحفظ فراہم کرنے والے کئی ججوں نے تو اپنے فیصلوں میں آمروں کے غیر آئینی اقدامات کو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیتے وقت کسی قسم کی شرم بھی محسوس نہ کی۔
سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کو سزا دینے والی خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ اپیل کی سماعت کے دوران میں جسٹس اطہر من اللہ کے الفاظ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں کہ ’’مشرف مارشل لا کو راستہ دینے اور مارشل لا کو قانونی قرار دینے والے ججوں کا بھی ٹرائل اور احتساب ہونا چاہیے۔‘‘
10 جنوری 2024ء ایک تاریخ ساز دن ہے جس دن سپریم کورٹ نے مشرف کی سزائے موت کو برقرار رکھا۔
اس دن تاریخ میں پہلی مرتبہ سب سے بڑی آئینی عدالت نے اِک آئین شکن کو غدار قرار دینے پر مہر ثبت کردی۔
اسی دن سپریم کورٹ کے جج مظاہر نقوی المعروف ’’ٹرکاں والی سرکار‘‘ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف جاری کرپشن ریفرنس سے بچنے کے لیے استعفا دے دیا۔
یاد رہے کہ استعفا دینے والے موصوف وہی جج ہیں، جنھوں نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والے مرحوم جسٹس سیٹھ وقار کی سربراہی میں قائم خصوصی عدالتی ٹریبونل کو بطورِ لاہور ہائیکورٹ جج بہ یک جنبشِ قلم ختم کرنے کا عدالتی حکم نامہ جاری فرمایا تھا۔ پھر اُسی غیر آئینی و غیر قانونی فعل کے ارتکاب پر نادیدہ قوتوں کی جانب سے بطورِ سپریم کورٹ جج ترقی کا انعام بھی حاصل کیا۔
10 جنوری 2024ء اس لیے بھی تاریخ ساز دن ہے کہ پاکستان میں جمہوریت پر شب خوب مارنے والوں کو پہلی مرتبہ آئینی و قانونی طور پر شکست ہوئی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
جنرل ضیا کے پاکستانی سیاست پر اثرات  
پارٹی کارکن سیاست کا ایندھن  
غیر منطقی طور پر سیاست زدہ معاشرہ  
سیاست دانوں کو بدنام کرنا مسئلے کا حل نہیں 
سیاست میں مذہبی ٹچ  
یہ دن اس لیے بھی تاریخ ساز ہے کہ اس دن پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے مارشل لا نافذ کرنے والے پرویز مشرف کو غدار قرار دے دیا۔
بلاشبہ یہ نواز شریف کا سرخ رُوہونے کا بھی دن ہے۔
یاد رہے تین مرتبہ کے منتخب وزیرِ اعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کی سب سے بڑی وجہ پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر 2007ء کی غیر آئینی ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدام پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ چلانا تھا۔ نواز شریف، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سیٹھ وقار مرحوم اور دیگر آئین پسند ججوں کا نام تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا، جنھوں نے آئین شکنوں کے سامنے جھکنے کی بجائے ڈٹ کر مقابلہ کرنا پسند کیا،مگر افسوس اس جد و جہد میں آئین پسندوں کو آئین کی سربلندی کے لیے ڈھیر ساری قربانیاں دینا پڑیں۔
یہ تاریخ ساز دن ’’سول سپرمیسی‘‘ کی جانب پہلا قدم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے عہدے کے باقی ماندہ مختصر سے دورانیہ میں پاکستانی آئینی تاریخ کو درست پٹری پر چڑھانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے چیف جسٹس کے طور پر پہلے سے موجود اپنے اختیارات کو پارلیمنٹ کے قانون ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر‘‘ کے سامنے سرنڈر کیا اور یکے بعد دیگرے ’’ذوالفقار علی بھٹو عدالتی قتل کیس‘‘ اور ’’فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی‘‘ ایسے تمام مقدمات کو سپریم کورٹ کی زینت بنایا، جن مقدمات کی سماعت تو درکنار، اُن مقدمات کا نام لیتے ہوئے بھی شاید سابقہ چیف جسٹس صاحبان کی ٹانگیں کانپنا شروع کردیتی ہوں گی۔
اسی طرح ادارہ جاتی احتساب کی بات کی جائے، تو ادارے میں موجود کالی بھیڑوں کی سرکوبی کے لیے ’’سپریم جوڈیشل کونسل‘‘ کو فعال کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نیت اور شفافیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام اہم مقدمات کی براہِ راست میڈیا کوریج کا فیصلہ کیا۔
یہ دن اس لیے بھی تاریخ ساز ہے کہ پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والے مرحوم جسٹس سیٹھ وقار کو ذہنی مریض قرار دینے والے سیاسی لیڈران اُسی دن انتخابات کے لیے نااہل قرار پائے ہیں۔ کاش، یہ سیاسی لیڈران غیر منتخب قوتوں کا دُم چھلا بننے کی بجائے قانون کو اپنا راستہ آپ بنانے کا موقع فراہم کرتے، تو آج یہی سیاسی لیڈران مکافاتِ عمل کا شکار نہ ہوتے۔
اِس وقت خوش آیند بات یہ بھی ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنے آپ کو سیاسی و عدالتی معاملات سے الگ کیا ہوا ہے۔ باوجود اس کے پرویر مشرف پھانسی کی سزا بھگتے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگیا، مگر سپریم کورٹ کے فیصلے نے مستقبل میں کسی قسم کی مہم جوئی کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے رستہ بند کرنے کا اہتمام ضرور کردیا ہے۔
راقم آج بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پُرامید ہے کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک پاکستانی عدلیہ کے لیے ایسے نظائر چھوڑ کر جائیں گے، جو نہ صرف مشعلِ راہ ہوں گے، بلکہ ان کی پیروی کرنا لازم قرار پائے گا۔
یقینی طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین و قانون اور انصاف کے لیے اُمیدِ سحر ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔