کسی بھی سیاسی پارٹی کے ورکر اُس کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ یہ ورکر ہی ہوتے ہیں جو لیڈران کا مورال گرنے نہیں دیتے۔ اُن کا حوصلہ اور عزم لیڈروں کے لیے آکسیجن کا کام دیتا ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے لیے ووٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ میں ووٹ کی طاقت ہی اُنھیں پہنچاتی ہے، مگر سپورٹ کی اہمیت ووٹ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ووٹ 5 سال میں ایک مرتبہ چاہیے ہوتا ہے۔ 5 سال تک پارٹی کو زندہ رکھنے اور پھلنے پھولنے کے لیے سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سپورٹ پارٹی کو اس کے ورکر فراہم کرتے ہیں۔ کئی ورکر جذباتی ہو کر پارٹی کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
اگر پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی تاریخ دیکھی جائے، تو ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے سیاست دان تھے، جنھوں نے عوام کو سیاسی شعور دیا۔ اُن کی طلسماتی شخصیت نے عوام کو اُن کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ بھٹو ہی وہ پہلے سیاست دان تھے، جن کی گرفتاری پر سیاسی ورکروں نے خود کو آگ لگا کر جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ شاہی قلعے میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اپنے جسموں پر کوڑے کھائے، جَلاوطنی برداشت کی، مگر بھٹو کی ذات کے سحر سے اُنھیں کوئی نہ نکال سکا۔ وہ ضیاء الحق کا دور تھا۔ ایک ایسے آمر کا دور جو خود کو مطلق العنان سمجھتا تھا۔ سمجھتا ہی نہیں تھا، اس کا قدم قدم پر عملی مظاہرہ بھی کرتا تھا۔ ملک پر مارشل لا مسلط تھا۔ میڈیا پر قدغن تھی۔ الیکٹرونک میڈیا میں صرف پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان تھے جو حکومتی ترجمانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اخبارات سنسر شپ کی زد میں تھے۔ پرائیویٹ ریڈیو، ٹی وی چینل یا سوشل میڈیا کا تصور تک نہ تھا۔ ہر طرف فوج کے پہرے تھے۔ ایسے جبر کے ماحول اور نامساعد حالات میں پیپلز پارٹی کے جیالوں نے قربانیوں کی وہ تاریخ رقم کی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری پر جیالوں نے جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی ایک پوری سیریز منعقد کر ڈالی۔ ایک یا دو دن پہلے جیالوں کی طرف سے باقاعدہ اعلان ہوتا کہ کل یا پرسوں لاہور کے فُلاں چوک پر ایک جیالا خودسوزی کرے گا۔ پولیس اس مقام کو گھیرے میں لے لیتی۔ پولیس کے جوان چوکس نظروں سے اِردگرد کے علاقے کو حصار میں لے لیتے۔ اچانک کہیں سے ایک نوجوان برآمد ہوتا، خود پر تیل چھڑکتا اور آگ لگا لیتا اور جل جاتا۔ پولیس تمام تر چوکسی اور ہوش یاری کے باوجود دیکھتی ہی رہ جاتی۔ لاہور کے علاوہ راولپنڈی، فیصل آباد، اوکاڑا اور دوسرے متعدد شہروں میں خودسوزی کے واقعات ہوئے۔ یہ جیالے ذاتی تشہیر یا کسی اور مقصد کے لیے نہیں، بلکہ بھٹو کے عشق میں جانیں قربان کرتے تھے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
غیر منطقی طور پر سیاست زدہ معاشرہ
سیاست دانوں کو بدنام کرنا مسئلے کا حل نہیں
سیاست میں مذہبی ٹچ
مائنس ون فارمولا سیاست سے مائنس کیا جانا چاہیے
سیاست اب عبادت نہیں رہی
یہ ہے ہماری سیاست 
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد میاں منظور احمد وٹو دوسرے ایسے سیاست دان ہیں، جن کی گرفتاری پر بصیرپور کے ایک نوجوان نے سرِعام خود سوزی کی تھی۔ میاں منظور احمد وٹو کا خاندان آج تک اُس خاندان کے لیے چشم بہ راہ رہتا ہے۔
اب حالات وہ نہیں رہے۔ پہلے کوئی بھی سیاسی ورکر بہت سوچ بچار کے بعد کسی پارٹی کا ورکر بنتا تھا۔ علاقے میں اُس کی ایک پہچان ہوتی تھی۔ دوسری پارٹیوں کے ورکر اور راہ نما اُس کی عزت اور احترام کرتے تھے۔ اخلاقی اقدار کی پاس داری کی جاتی تھی، مگر اب تو ہر نوجوان خودساختہ سیاسی ورکر بن گیا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہونے کے بعد عقل کو اس پارٹی کے بیانیے کے پاس گروی رکھ دیتا ہے۔ سچ جھوٹ کی تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
قارئین! گذشتہ چند سالوں میں سیاسی سرگرمیوں میں بہت شدت آچکی ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا نے بھی اپنی ریٹنگ اور مقبولیت کے لیے سیاسی اختلافات کو دشمنی کی حد تک لے جانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیاسی ورکروں کے رویوں میں شدت آگئی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کا ورکر خود کو برحق اور مصلح سمجھتے ہوئے دوسری سیاسی پارٹی کے ورکروں کو فتوؤں کی زد میں لیے ہوئے ہے۔ اختلافِ رائے برداشت سے باہر ہوچکا ہے۔ سیاسی ورکروں کے رویوں میں اس قدر شدت آ چکی ہے کہ وہ دوسرے کی سیاسی وابستگی یا رائے کا احترام کرنے کی بجائے دوسروں کو یہ حق دینے کو تیار ہی نہیں کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی کا فیصلہ خود کرسکیں۔ طنزاً ایک دوسرے کو ’’پٹواری‘‘، ’’یوتھیا‘‘ اور جانے کیا کیا القابات دیے جاتے ہیں۔
دوسری طرف اگر اِن ورکروں کی پارٹی کے اندر اہمیت کی بات کی جائے، تو کسی کی حیثیت بھی ’’ٹشوپیپر‘‘ سے زیادہ نہیں۔ پارٹی کے لیے یہ ورکر محض ایندھن ہیں۔ ایندھن جلنے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ اِن ورکروں کے ذاتی دُکھ سکھ میں کوئی شریک نہیں ہوتا۔ پارٹی کے لیے جب یہ ورکر گرفتار ہوتے ہیں، تو ضمانت یا رہائی کے لیے بھاگ دوڑ اِن کے ورثا کو کرنا پڑتی ہے۔ اگر یہ ورکر جان کی بازی ہار جائیں، تو سیاسی فوائد کے لیے اِن کا نام تو استعمال کیا جاتا ہے، مگر نہ کوئی چھوٹا یا بڑا سیاسی لیڈر ان کے جنازے میں شریک ہوتا ہے، نہ ان کے گھر والوں کی خیر خبر ہی پارٹی کی جانب سے لی جاتی ہے۔ اِن کے لواحقین کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا کہ عرصۂ حیات اِن پر کیسے تنگ ہوگیا ہے۔
وزیرآباد میں عمران خان کی ریلی میں اندھی گولی کا شکار ہونے والے ورکر کی بدقسمتی یاد کیجیے کہ اُس کی لاش کے پاس اُس کے معصوم بچے بیٹھے تھے۔ ریلی میں شریک ہزاروں ورکر اور پارٹی لیڈر کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ اب اُس کا نام لیوا بھی کوئی نہیں۔ ظلِ شاہ اپنے لیڈر کے عشق میں جان کی بازی ہار گیا، مگر جن کے لیے مرا تھا، وہ اُس کے جنازے میں بھی نہ گئے۔ اُس کے بوڑھے والدین اور بہنوں پر کیا گزر رہی ہے، کسی نے پلٹ کر بھی نہ پوچھا۔ یہ تو صرف مثالیں ہیں۔ ہر جگہ اور سب کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے۔
9 مئی کے جلاو گھیراو کے واقعات ہی کو دیکھ لیجیے۔ پارٹی ورکروں کو بہت برے طریقے سے استعمال کرکے بہت سوں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا ہے۔ اِن کو سبز باغ دکھا کر اور سنہرے خواب فروخت کرکے تاریکیوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ لیڈروں نے دھڑا دھڑ پارٹی چھوڑنا شروع کر دی۔ جو ساتھ کھڑے ہیں وہ 9 مئی کے واقعات کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ خود عمران خان ان واقعات سے خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اُنھوں نے اپنے ورکروں کے اس فعل کی مذمت بھی کر دی ہے۔ اُنھوں نے صاف کَہ دیا ہے کہ گرفتار شدگان سرے سے ہماری پارٹی کے ورکر ہی نہیں۔ اندھی تقلید اور جذبات نے اِن ورکروں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ پارٹی نے اِنھیں قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ گھر والے اِن کے پیچھے خوار ہوتے پھر رہے ہیں۔ گرفتار ہونے والے بہت سوں کا ’’سوفٹ ویئر اَپ ڈیٹ‘‘ ہوچکا ہے مگر
سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا
یاد رکھیے! جس کے ساتھ دل چاہے سیاسی وابستگی رکھیے۔ اپنا ووٹ دے کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے…… مگر سیاست کا ایندھن مت بنیے۔ کسی کا ’’ٹشو پیپر‘‘ خود کو مت بنائیے۔ آپ زمانے کے لیے ایک فرد ہیں، مگر اپنے خاندان کا سب کچھ ہیں۔ اپنی قدر کیجیے اور خاندان کو اُلجھنوں سے بچائیے۔ ہر کام ایک حد میں ہی ٹھیک رہتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔