لیجیے جناب! وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔
آئی ایم ایف نے نگران حکومت پاکستان کی طرف سے پیش کیا جانے والا ’’ریلیف پلان‘‘ نامنظور کر دیا۔
حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ بجلی کی مد میں صارفین کو ریلیف دینے کی صورت میں ملکی خزانے پر ساڑھے چھے ارب روپے کا اثر پڑے گا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
حکومت نے آئی ایم کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بلوں میں رعایت دینے کی صورت میں وہ بجٹ پلان سے آؤٹ نہیں ہوگی۔ آئی ایم ایف نے اس حکومتی موقف کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس ریلیف سے خزانے پر 15 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔
آئی ایم ایف نے نگران حکومت سے 15 ارب روپے کی مالیاتی گنجایش کا نیا پلان مانگ لیا ہے۔ حکومت نے بجلی کے بلوں کو چار ماہ میں وصول کرنے کا پلان بھی بناکر منظوری کے لیے پیش کیا تھا، جسے جدید دور کے ’’مہا بنیے‘‘ نے بیک جنبشِ قلم مسترد کر دیا۔ اب حکومت نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ بجلی بلوں کی اقساط میں وصولی کے پلان پر آئی ایم ایف سے دوبارہ بات کی جائے گی۔
اُدھر حکومت کے وزیرِ توانائی جناب محمد علی نے یہ جان لیوا وعید بھی سنا دی ہے کہ موجودہ حالات میں عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینا ممکن نہیں۔ ڈالر اور تیل کی قیمتیں نیچے آنے کی صورت میں ہی ریلیف دیا جاسکتا ہے۔
نگران وزیرِ اعظم جناب انوارالحق کاکڑ نے فرمایا ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ حکومت بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
دوسری طرف جماعت اسلامی نے بجلی کی ہر روز بڑھتی قیمتوں کے خلاف عوام کو موبلائز کرنے کی ٹھان لی ہے۔ شٹر ڈاؤن ہڑتال کے بعد اب جناب سراج الحق نے چاروں گورنر ہاؤسز کے آگے دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ ممکن ہے اس کے بعد اُن کا ارادہ اسلام آباد کی طرف ملین، بلین یا ٹریلین مارچ کا بھی ہو۔
یادش بخیر، مہنگائی مارچ کے ملکی چمپئن بلاول بھٹو زرداری اپنے ابا حضور سمیت دوبئی میں 16 ماہ کے غیرملکی دوروں کی تھکن اتار رہے ہیں۔ ملین مارچ کے داعی حضرت مولانا فضل الرحمان 16 مہینوں کا کھایا پیا ہضم کرنے کے لیے قیلولہ فرما رہے ہیں، جب کہ شریف فیملی اپنے اصلی وطن ’’لندن‘‘ میں بیٹھ کر پاکستانیوں کی زندگی جہنم بنانے کا جشن منا رہی ہے۔
ایسے میں اگر کسی کو موجودہ نگران حکومت سے کسی ریلیف کی کوئی توقع ہے، تو وہ اپنی احمقانہ سوچ سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں آ جائے۔ موجودہ نگران سیٹ اَپ شہباز حکومت کی ایکسٹینشن ہے، جس کے ہاتھ قانون سازی کے ذریعے مضبوط کرکے اسے عنانِ حکومت دی گئی ہے۔
شہباز حکومت نے جو ’’ڈریکولین‘‘ کام سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے نہیں کیے تھے، اُنھیں پورا کرنے کا ٹاسک موجودہ حکومت کو دیا گیا ہے۔ یہ عوام کی رگوں سے لہو نچوڑنے کے لیے آئے ہیں۔ عوامی مینڈیٹ کے بغیر اقتدار سنبھالنے والے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اپنے لانے والوں کا ایجنڈا پورا کریں گے۔ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا ڈراما کرکے عوام کو لالی پاپ دیتے رہیں گے۔ مگر مچھ کے آنسو بہا کر عوام سے جھوٹی ہم دردی کا اظہار بھی کریں گے، اور ساتھ ساتھ بجلی، پٹرول، گیس اور ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ بھی کرتے جائیں گے۔ یہ آپ کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں، نہ انھوں نے آگے چل کر آپ سے ووٹ لینے ہیں، اس لیے احتجاج یا دھرنے ان کی صحت پر کچھ اثر نہیں ڈالیں گے۔
عوام کو ہی اب اپنے رہن سہن اور طور طریقے بدلنے ہوں گے۔ من حیث القوم ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہم ایسی غیرذمے دار قوم بن چکے ہیں، جو آدھا دن سوکر گزارتی ہے۔ یوں ہم چھے سات گھنٹے سورج کی روشنی اور شمسی توانائی کو ضائع کر دیتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ دن کے گیارہ بارہ بجے شاپنگ مالز اور مارکیٹیں کھولی جائیں اور رات بارہ بجے انھیں بند کیا جائے۔ اس کی ذمے داری دکان داروں سے زیادہ گاہکوں پر ہے۔ اگر گاہک مغرب کے بعد شاپنگ بند کر دیں، تو دکان دار بھی رات گئے تک دکانیں نہیں کھولیں گے۔ صبح جلدی اُٹھنے اور جلدی سونے کی صحت مند عادت اپنا کر ہم اپنی بجلی کی کھپت میں 30 سے 40 فی صد کمی لاسکتے ہیں۔ دن کے وقت گرمی کے موسم میں صرف ایک سولر پلیٹ پر پنکھا چلا کر گھر کے چار پانچ افراد گزارا کر سکتے ہیں۔ فریج تین گھنٹے صبح، دو گھنٹے دن میں اور دو گھنٹے رات میں بند رکھیں، گوشت، دودھ، میڈیسن فریزر میں شفٹ کر دیں۔ اس طرح پنکھے صرف چھت والے استعمال کریں۔ غیرضروری لائٹس بند رکھیں۔ پانی کا ٹینک صبح فجر کے بعد بھرلیں۔ استری چلاتے وقت پنکھے، موٹر اورفریج بند کر دیں۔ شام 6 سے رات 10 بجے تک ہیوی لوڈ والی چیزیں استعمال نہ کریں۔ گرمیوں میں ڈرائیر اور اوون کا استعمال بند کر دیں۔ نئی نسل کو اے سی کی عادت مت ڈالیں۔ صرف بجلی کے زائد بلوں پر ماتم کرنے پر اکتفا کرنا مناسب نہیں۔
آئیے، احتجاج کے ساتھ ساتھ خود بھی کچھ کریں۔ اپنے آپ کو بھی بدلیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔