کل قومی اخبار ’’دی نیوز‘‘ نے انصار عباسی کی سٹوری "Plan out to wrap up superior services.” شائع کی تھی۔ مجھے یہ خبر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ کچھ دن پہلے اسی موضوع پر لکھا تھا کہ صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی، ہم اس وقت تک ملک میں واضح تبدیلیاں نہیں دیکھ سکتے جب تک مسئلے کی جڑ تک نہ پہنچ سکیں۔ میں نے اپنے کالم میں جس برائی کا ذکر کیا تھا، وہ بیوروکریسی تھی۔ جب تک انگریز سے ورثہ میں ملا نظام درست نہیں ہوتا اور بالخصوص سول ’’سپیریر سروسز‘‘ میں اصلاح نہیں کی جاتی، تبدیلی ناممکن ہے۔ نظام چاہے صدراتی لایا جائے، یا پارلیمانی رہنے دیا جائے۔
اخبار ’’دی نیوز‘‘ کے مطابق حکومت نے ڈاکٹر عشرت العباد کی سربراہی میں ’’سول سروسز ریفارمز‘‘ کے لیے جو ’’ٹاسک فورس‘‘ قائم کی تھی، اسی نے ’’سول ریفارمز‘‘ کے لیے اپنی سفارشات کابینہ سے منظوری کے لیے پیش کی ہیں۔
آج ’’دی نیوز‘‘ نے اپنے اداریے میں "Equal Opportunity Administration” کے نام سے اس پر دوبارہ لکھا ہے اور اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
قارئین، یہ مرحلہ ہر گز آسان نہیں۔ کیوں کہ اصلاحات کے بعد قوم کے یہ خادم جو اَب بادشاہ بنے بیٹھے ہیں، اپنی اجارہ داری سے کسی قدر یا شائد بڑی حد تک محروم ہو جائیں گے۔ مذکورہ ریفارمز کی منظوری کے لیے قانون ساز ادارے میں بیٹھے اپوزیشن ارکان حکومت کا ساتھ دیں گے، یا ’’بغضِ معاویہ‘‘ رکھ کر بیوروکریسی کو خوش کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بھی ایک بڑی رکاوٹ دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال حکومت کا مجوزہ اصلاحاتی ٹاسک ایک عظیم کام ہے اور یہ اس ملک کو ’’انگریزیت‘‘ سے نکالنے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ نظام کے تحت حقیقی معنوں میں میرٹ کی بالادستی ہوگی۔ یوں ’’سپیشلائزڈ سرونٹس‘‘ اداروں کو دستیاب ہوں گے اور آگے بڑھنے کی شرط بھی کارکردگی کی بنیاد پر ہوگی، یعنی صرف سی ایس ایس پاس سیکریٹریٹ اور ڈائرکٹریٹ کے سربراہ نہیں، بلکہ کوئی بھی پبلک یا سول سرونٹ ادارے کی سربراہی تک اپنی قابلیت کی بنیاد پر پہنچ پا سکے گا۔ انگریز کے ’’کالونیل‘‘ دور سے قائم ’’سول سروسز‘‘ نظام میں سب بدترین خامیاں ہیں۔ یہ اس وقت حکمرانی کے لیے ڈیزائن ہوا تھا جب کہ آج عوام آزاد ہیں۔ آج کے اس آزاد دور میں نوکر کو نوکر کی حد میں ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔ ڈی سی، اے سی، کمشنر وغیرہ قوم کے نوکر ہیں۔ قوم مزید ان کو آقا ماننے سے انکاری ہے۔ یقین نہ ہو، تو سوشل میڈیا دیکھئے، واللہ! نوجوان سمجھ چکے ہیں۔ ان کو بطور آقا ماننے سے انکاری ہیں۔ حکومت وقت کا بہترین فیصلہ ہے کہ وہ بدلتے حالات کو پہچان چکے ہیں۔
مجوزہ اصلاحاتی نظام کو اگر کلیتاً نافذ کیا جاتا ہے، تو پاکستان میں حقیقی تبدیلیوں کے نئے دور میں شامل ہوجائے گا، جس سے یقینا پاکستان اٹھے گا۔ مَیں نے یورپ کے سول سروس نظام کا عمیق مطالعہ تو نہیں کیا، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہاں کا نظام قابلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر قائم ہے۔ پاکستان کے تمام نظام کی ازسرِ نو تعمیر ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ صرف عمر کی بنیاد پر سکیل اور انکریمنٹس دیے جائیں۔ کارکردگی کی بنیاد پر ترقی دی جائے اور ہر ملازم کو نظام کے تحت پابند کیا جائے کہ وہ قوم کے ٹیکس کے پیسوں کا معاوضہ تب لے، جب وہ اپنی کارکردگی دکھائے۔ حقیقت یہی ہے کہ صدر اور وزیر اعظم سے لے کر ایک چپڑاسی تک سبھی قوم کے دیے ہوئے ٹیکس کے پیسوں سے اپنا پیٹ پالتے ہیں اور سبھی اس قوم کے نوکر ہیں۔ نوکر نوکر ہی رہتا ہے بادشاہ نہیں کہلا سکتا۔
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔