تحریر: ارینا ماکسی مینکو
کرشن چندر اور فیض احمد فیضؔ نمایاں شخصیات تھیں۔ اس میں شاید ہی کسی کو شک ہو۔ مجھ ناچیز کو ان دونوں سے ملنے کا موقع نصیب ہوا تھا، جو میرے لیے بے حد خوشی کی بات ہے، لیکن مَیں ہرگز اپنے بارے میں یا ان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں بتانے والی نہیں ہوں۔ مَیں ان دونوں کی آپس میں ہوئی ملاقات کے بارے میں بتانا چاہوں گی جو میری آنکھوں کے سامنے ہوئی تھی۔ ایسا مئی سن 1967ء میں ماسکو میں ہوا تھا۔ اس وقت ماسکو میں سوویت ادیبوں کی کانگریس ہو رہی تھی جس میں شرکت کے لیے ہمارے ملک کے کونے کونے سے ادیب اور شاعر تشریف لائے تھے۔
مختلف ممالک سے مشہور و معروف مصنف اور شعرا کو مہمانوں کی حیثیت سے بلایا گیا تھا۔ ہندوستان سے کرشن چندر جی کو مدعو کیا گیا تھا جو اپنی بیگم سلمیٰ صدیقی صاحبہ کے ہم راہ تشریف لائے تھے۔ مجھے ان کی مترجم کے فرایض سونپے گئے تھے۔
تمام شرکا اور مہمانوں کو ماسکو کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا…… جو دارالحکومت کے عین مرکز میں لال چوک کے بالکل قریب واقع ہے۔ آج یہ ہوٹل ’’فور سیزنز‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ہوٹل کے ریستوران میں لا محالہ سب کے لیے کھانا کھانے کا انتظام تھا۔ کانگریس کی رسمِ افتتاح سے ایک دن قبل کرشن چندر جی، سلمیٰ صدیقی اور میں اس ہوٹل کے ریستوران میں داخل ہوئے تھے، تو اس میں دوسرے دروازے سے ایک اور شخص اندر آئے تھے، جن کا جسم کافی مضبوط تھا اور قد اوسط تھا۔ چندر جی اچانک ان کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے تھے اور اس شخص نے بھی وہی کیا تھا۔ ان دونوں نے نہ صرف آپس میں ہاتھ ملائے…… بلکہ ایک دوسرے کے گلے بھی لگے اور کچھ لمحوں تک ہم آغوش ہوئے کھڑے رہے۔
مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دوسرا شخص کون تھا، لیکن سلمیٰ صدیقی نے مجھے بتایا تھا کہ یہ فیضؔ ہیں۔ مَیں نے ان کا نام سنا تو تھا…… مجھے معلوم تھا کہ فیض اُردو زبان کے بڑے شاعر ہیں جنہیں ’’لینن امن انعام‘‘ عطا کیا گیا تھا۔ پھر معلوم ہوا تھا کہ وہ دونوں 20 سالوں بعد ملے تھے یعنی تقسیمِ ہند کے بعد پہلی بار۔
یاد رہے کہ سوویت ادیبوں کی کانگریس میں حصہ لینے والے ہر وفد کی ایک الگ میز تھی جس پر ان کے ملک کا چھوٹا سا پرچم رکھا گیا تھا۔ فیض صاحب نے کرشن جی سے کہا تھا کہ ہم لوگ ایک ہی میز کے گرد بیٹھیں گے۔ مَیں نے شاید حیرت کے ساتھ ان کی طرف دیکھا، تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا: ’’بچی پریشان مت ہو…… مَیں اپنے ملک کا پرچم اٹھا کر آپ کی میز پر رکھ دوں گا۔‘‘ انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا: ’’آج دنیا میں ماسکو شاید واحد جگہ ہے جہاں ہمارے دونوں ملکوں کے جھنڈے ساتھ ساتھ رکھے جاسکتے ہیں۔‘‘ پھر کرشن چندر اور فیض احمد فیض رات گئے تک باتیں کرتے رہے تھے۔ آپ جان چکے ہیں کہ وہ دونوں بہت سال بعد ماسکو میں ملے تھے جو حسنِ اتفاق تھا۔
اس کے بعد کانگریس کے دوران میں کرشن چندر اور فیض احمد فیض ہمیشہ ایک ہی میز پر بیٹھے تھے۔ یہ وہ چھوٹا سا واقعہ تھا جس بارے میں، مَیں بتانا چاہتی تھی۔ یہ واقعہ مجھے آج بھی اسی طرح یاد آ رہا ہے جیسے وہ نصف صدی قبل نہیں بلکہ ابھی ابھی ہوا ہے۔
(نوٹ:۔ ارینا ماکسی مینکو (Irina Maximenko) روسی اُردودان، مترجم اور صحافی ہیں۔ وہ برسوں ماسکو ریڈیو، پھر صدائے روس اور بعد میں سپتنک ایجنسی کے شعبۂ اردو میں کام کرتی رہیں۔ اپنے کام کے دوران میں انہوں نے ریڈیو پروگراموں کی میزبان کی حیثیت سے برصغیر کی بہت سی نمایاں شخصیات کے انٹرویو کیے۔ انہوں نے کئی مشہور اُردو مصنفوں کے افسانوں کا روسی زبان میں ترجمہ بھی کیا، بہ شکریہ ’’عالمی ادب کے اُردو تراجم‘‘، فیس بُک)
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔