ناولٹ’’مَیں خزاں میں آؤں گا‘‘ (1970ء) کی ہیروئین کا نام رضیہ ہے جس کا ہیرو ایک 70 سالہ بوڑھا پینٹر ہے جو خود کلامی کے انداز میں اپنا ماضی یاد کر رہا ہے۔ ناولٹ کا آغاز اے حمید کا مخصوص رومانوی انداز ہے جو کسی اور اُردو ادیب کے پاس نہیں۔
’’سبز میز اور تینوں کرسیاں دیوان خانے میں ڈال دی گئیں۔ ان میں دو کھانا کھانے والی تھیں اور ایک آرام کرسی تھی جو ایک ہندو کے مکان سے نکلی تھی۔ اس کی پشت پر سفید رنگ سے ’’منڈو رام بھڑوچہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔ بھائی صاحب نے اُسے چاقو سے کُھرچ کر وہاں اپنا نام یعنی غلام احمد الیکٹریشن لکھوا لیا تھا۔‘‘
پاکستان میں مہاجرین کی اکثریت نے یہی کیا۔ جعلی کلیم بھرے، جائیداد اور مال و اسباب پر قابض ہوگئے اور نام کو ہندو سے بدل کر مسلمان کرلیا۔ بس اتنی محنت کی نام بدلنے کی۔’’سنت نگر‘‘ کو ’’سُنت نگر‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ ’’کرشن نگر‘‘ کو ’’اسلام پورہ‘‘ کا نام دے دیا۔ نام بدل دینے سے انسان اور اُن کے مذہب بھی تبدیل ہوئے۔
’’میرے دالان میں قدم رکھنے سے پہلے آپو جی بھائی صاحب کے گوش گزار کر چکی تھی کہ وہ کام سے واپس لوٹتے ہوئے راشن کے دفتر سے پرانا راشن کارڈ تبدیل کرواتا آئے۔ پہلے تو جیسے بھائی صاحب نے کچھ سُنا ہی نہیں تھا۔ بڑے مزے سے پیڈلوں کو تیل دیتے اور انہیں ہاتھ کے جھٹکے سے زور زور سے گھماتے رہے۔ پھر تیل کی پیک زمین پر رکھی او رچیتھڑے سے ہاتھ پونچھتے ہوئے بولے: ’’اب کے راشن کاٹ میں دو نگ زیادہ لکھوائیں گے۔‘‘ آپو جی نے کہا : ’’ایسا نہ کرنا۔ یہ بُری بات ہے۔ کسی کو پتہ چل گیا تو مصیبت ہو جائے گی۔‘‘ بھائی صاحب نے زور سے کھنکھار کر تھوکا اور آستین سے منہ صاف کر کے بولے: ’’چیکن کرنے والا اپنا آدمی ہے۔ اُسے ابھی کل کمپنی کے سٹور سے سو واٹ کا بلب چُرا کر دیا ہے۔‘‘
اس اقتباس میں اُسی قبضہ گروپ کا احوال ہے جو اسلام کے نام پر آیا تھا۔ راشن کارڈ گزرے وقتوں کا شناختی کارڈ ہوتا تھا۔ اُس میں دو افراد کا جعلی اضافہ عوامی کرپشن کی علامت ہے۔ کیوں کہ اجناس کی قلت کے باعث راشن بندی تھی۔ آٹا اورچینی راشن پر ملتی تھی اور فالتو ملنے والا راشن اوپن مارکیٹ میں زیادہ منافع لے کر بیچ دیا جاتا تھا۔ شر سے خیر کس طرح برآمد ہو سکتا ہے؟ پاکستانی قوم ابھی تک اسی عذابِ مسلسل میں گرفتار ہے اور ذِلتوں کے مزید نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔
اے حمید کے اس ناولٹ کی ہیروئین کا نام بھی ’’رضیہ‘‘ ہے اور اُس نے بھی اپنے بالوں میں زرد گلاب ٹانک رکھا ہے۔ لگتا ہے خود اے حمید اپنے پہلے ناولٹ کے اثر سے پوری طرح باہر نہیں نکلے۔ کرداروں کے نام بھی ویسے ہی ہیں یا ملتے جلتے جیسے سعیدہ اور عابدہ۔
’’ایک طوطے ایسی ناک والے پتلے دبلے رشتہ دار رفوگر نے مکان کے اندر جھانک کر دیکھا اور پھر اپنے ساتھی سے چہک کر بولا: ’’بس میت تیار ہے کاکا جی!‘‘ اُس کے ساتھی نے اطمینان کا سانس لیا اور منہ پر ہاتھ پھیر کر کلمے شریف کا وِرد شروع کر دیا۔ مجھے رفوگر کی اس حرکت سے بڑا صدمہ ہوا اور مجھے بھی لگا جیسے یہی وہ لوگ ہیں جو شادی کی دعوتوں میں بھی اپنے اکتائے ہوئے بھوکے ساتھیوں کو خوش خبری سنایا کرتے ہیں: ’’بس کھانا تیار ہے کاکا جی!‘‘
والد کی وفات کے بعد ہیرو یعنی پینٹر کی بہن عابدہ کی شادی ہو جاتی ہے۔ رضیہ، عابدہ کی سہیلی تھی۔ پھر رضیہ کا بھی گھر میں آناجانا بند ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی رضیہ سے پینٹر بابو کا یک طرفہ پیار تھا۔ پھر رضیہ کی بھی شادی ہو جاتی ہے اور پینٹر اس صدمے سے کئی روز نڈھال رہتا ہے۔ پینٹر کی بہن عابدہ اُسے بتاتی ہے کہ رضیہ اپنے خاوند سے بہت محبت کرتی ہے اور اپنے گھر میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہے۔
انسان بنیادی طور پر خود غرض ہے۔ پینٹر بھی خود غرض ہو کر سوچتا ہے کہ رضیہ کے گھر لڑائی جھگڑے ہوں۔ اُس کا خاوند اُس سے نفرت کرے اور طلاق دے کر اُسے گھر بٹھا دے، مگر یہ ایک سطحی انسان کی جذباتی سوچ ہے اور اس ناولٹ کا ہیرو پینٹر بابو ایک فنکار ہے یعنی ساری دنیا سے مختلف اور منفرد۔ وہ ایسی سوچ کو جھٹک دیتا ہے۔ پھر وہ اپنی اُداسی مٹانے کے لیے شہر شہر، ملک ملک پھرتا ہے اور اپنے ماضی کی یادوں سے دل بہلاتا ہے اورآخرِکار ایک ہوٹل میں گمنامی کی موت مرجاتا ہے۔اس ناولٹ میں کہانی کی کمی ہے مگر لفاظی کی کوئی کمی نہیں۔ اے حمید ڈراما رائٹر (ریڈیو، ٹی وی) بھی رہے ہیں اور صحافی بھی۔ اُن کے لیے صفحے کالے کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
اسلوبیاتی سطح پر یہ ناولٹ خود اے حمید کے ناولٹ ’’زرد گلاب‘‘ کے اثر میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے۔ اسے اے حمید کی طرف سے وہ توجہ نہیں ملی جس کا یہ حق دار تھا۔ رومان اور رومانوی اثرات تو اس ناولٹ میں بھی ہیں، مگر وحدت ِ تاثر سے محروم ہیں۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔