ادبی جعلسازی کی دو بڑی قسمیں ہیں:
ایک، سرقہ۔
دوسری، ادبی جعلسازی۔
سرقہ کے معنی چوری کے ہیں۔ سرقہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے نتائجِ فکر کو اپنے نام سے منسوب کرکے لوگوں کو دھوکا دے۔
ادبی جعلسازی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے نتائجِ فکر کو کسی دوسرے کے نام سے منسوب کرکے لوگوں کو دھوکا دے۔
اگر برٹرینڈرسل کا یہ خیال صحیح ہے کہ فلسفیانہ افکار کو مدوّن کرتے ہوئے فورفوریوس نے ان پر مافوق الفطرت تصورات کا رنگ چڑھا دیا یعنی فلاطینس کے افکار میں اپنے افکار اس طرح شامل کردیے کہ لوگ انہیں فلاطینس کے افکار سمجھ کر پڑھیں، تو یہ ادبی جلعسازی ہے۔
تزوکاتِ تیموری کے بارے میں بعض نقادوں کی یہ رائے ہے کہ یہ ایک جعلی تصنیف ہے جو بعد میں آنے والے کسی شخص نے ’’تزکِ بابری‘‘ اور ’’تزکِ جہانگیری‘‘ کے نمونے کے طور پر تصنیف کی اور تیمور سے منسوب کر دی۔
(ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کی تالیف ’’ادبی اصطلاحات کا تعارف‘‘ مطبوعہ ’’اسلوب، لاہور‘‘ اشاعتِ اول مئی 2015ء، صفحہ 25 سے انتخاب)