پلاسٹک کی تباہ کاریاں

آج جو ہر طرف پلاسٹک کی تباہ کاریاں نظر آرہی ہیں اور زندگی کے ہر شعبہ میں پلاسٹک کا استعمال عام ہے، یہ استعمال 1980ء کی دہائی میں شروع ہوا۔اس سے پہلے نہ نکاسی آب کا مسئلہ درپیش تھا اور نہ نالیوں کی بندش کا۔ آج چھوٹے پہاڑی گاوؤں اور قصبوں سے لے کر بڑے بڑے شہروں کی نالیاں اور ندیاں پلاسٹک سے اٹی پڑی نظر آتی ہیں، جس کی وجہ سے ہماری صفائی کا ستیاناس ہورہا ہے۔
ہماری یادداشت کے مطابق یعنی 1980ء سے پہلے جب بارشیں ہوتی تھیں اور ندی نالے چڑھتے تھے، تو بارش کا پانی ندی نالیوں کی صفائی کرتا تھا۔ تہہ میں صاف ریت پڑا رہ جاتا۔ سینیٹری ورکر نالیوں سے صاف ریت نکالتا جب کہ مزدور پیشہ لوگ ندیوں سے صاف ریت نکال کر ایک جگہ جمع کرتے، بعد میں فروخت کرتے جو تعمیرات میں استعمال ہوتا۔
مگر آج جب بارشیں ہوتی ہیں، تو پلاسٹک کی مستعمل تھیلیوں اور ٹکڑوں کی وجہ سے نالیاں اُبھر کر پانی اوپر پھینکتی ہیں، جس کے نتیجے میں سڑکیں اور گلیاں سیلاب کا منظر پیش کرتی ہیں۔ گندی کیچڑ کی وجہ سے ہر طرف بدبو پھیل جاتی ہے اور فضا مسموم ہوکر ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ پلاسٹک کی مضرات سے نہ صرف زمین بُری طرح متاثر ہوتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے سمندر اور دریا بھی آلودہ ہو رہے ہیں۔ دنیا میں روزانہ لاکھوں ٹن پلاسٹک کی تھیلیاں وغیرہ استعمال ہوتی ہیں جن کا بیشتر حصہ سمندروں اور دریاؤں میں بھی پہنچ جاتا ہے، جس سے آبی جانوروں کی زندگی کو کافی خطرات لاحق ہیں۔ چھوٹی مچھلی سے لے کر مگرمچھ وغیرہ تک تمام جانور جب پلاسٹک کے ٹکڑے کو خوراک سمجھ کر نگل لیتے ہیں، تو حلق میں پھنس کر انہیں ہلاک کرتے ہیں اور اس طرح ان کے مردہ اجسام گل سڑکر پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔
آج جب ہر جگہ پلاسٹک ہی پلاسٹک نظر آتا ہے، تو زرعی زمینیں بھی ان سے خالی نہیں۔ یہ زمین کے اندر بھی ہوتا ہے اور اوپر بھی۔ ماہرین کے مطابق پلاسٹک چوں کہ صدیوں میں تلف نہیں ہوتا، لہٰذا یہ زمین کی پیداواری صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح بڑھتا اور جاری رہا، تو ہماری آئندہ نسلیں خوراک کی کمی کا شکار ہوسکتی ہیں۔
زمین کے بعد غذائی ضروریات کا بڑا وسیلہ سمندر ہیں۔ اس لیے ماہرین سمیت ہم سب کا فرض ہے کہ غذائی ضروریات کے پیش نظر سمندروں اور دریاؤں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
پلاسٹک دورِ جدید کا عالمی مسئلہ بن گیا ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اس کرۂ ارض کو پلاسٹک کے مضر اثرات سے بچانے کی کوشش کرے اور ایسی تدابیر اختیار کرے کہ پلاسٹک کے استعمال کو آہستہ آہستہ کم کرکے ختم کرے، اور اس کی جگہ قابلِ تلف چیز رائج کرے۔
ہمارے ہاں چوں کہ تعلیم اور شعور کم ہے، لہٰذا لوگ بلا خوف و خطر پلاسٹک کے مضر اثرات اور اجزا کو اپنے جسموں میں داخل کرتے ہیں۔
اب تو لوگ پلاسٹک کی تھیلیوں میں کھانے پینے کی گرم اور ٹھنڈی اشیا بھی لے جائی جاتی ہیں۔ ہم کتنے کاہل الفطرت اور سست الوجود ہوگئے ہیں کہ پلاسٹک کی تھیلیوں میں گرم دودھ، چاول، چائے اور سالن وغیرہ ڈال کر لے جاتے ہیں۔ جب پلاسٹک گرم ہوجاتا ہے، تو یہ مضر صحت کیمیائی اجزا کھانے میں چھوڑتا ہے جو مختلف خطرناک امراض کا سبب بنتے ہیں۔
اگر چہ پلاسٹک ہمیں چند سہولتیں فراہم کرتا ہے، لیکن اس کی تباہ کاریاں بھی آشکارا ہیں بلکہ یہ روز بروز ہمارے لیے مسائل کی جڑ اور اذیت بنتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ اس کے استعمال میں ہم لاپروائی کرکے زمین اور فضا کے ساتھ سمندروں، دریاؤں اور آبی حیات کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اگر ہم نے اس مسئلہ کو نظر انداز کیا، تو ہماری آئندہ نسلیں پلاسٹک کی مزید تباہی سے دوچار ہوں گی اور اس وقت کف افسوس ملنے کے سوا کچھ چارہ نہیں ہوگا۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔