انسانی معاشرے میں ہر فکر و خیال کے افراد پائے جاتے ہیں۔ کچھ ایسے جو حالات و واقعات اور صورتِ حال کو مثبت اور پُرامید انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں آدھا خالی گلاس بھی آدھا بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ کچھ اور لوگ جو قنوطی، ناامید اور منفی نقطۂ نظر کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کو آدھا بھرا ہوا گلاس بھی آدھا خالی نظر آتا ہے، لیکن صحیح اور درست نقطۂ نظر یہ ہے کہ حالات و اقعات اور صورتِ حال کو کھلی آنکھوں اور حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے۔ اس طرح ہم حالات کا صحیح اور درست اندازہ اور تجزیہ کرسکتے ہیں۔
ہمارا ملک اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جنوب مشرقی ایشیا کے بالکل درمیاں اور مرکزی خطے میں واقع ہے۔ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے اس کی اہمیت ہر لحاظ سے واضح ہے۔ وسیع و عریض رقبے پر مشتمل یہ ملک ہر قسم کے وسائل سے مالا مال ہے۔ فلک بوس برف پوش پہاڑ، جنگلات، ندی نالوں، دریاوں، آبشاروں، میدانوں، صحراوں، خوبصورت مناظر اور ہر قسم کی نعمتوں سے مالامال ہے۔ معدنی وسائل، رقبہ جات، باغات اور چاروں موسموں پر مشتمل یہ ملک خوبصورت بھی ہے او ر دلکش بھی۔
اس کی آبادی بائیس کروڑ افراد اور بیشتر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ زرعی پیداوار اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے یہ چند ممتاز ممالک میں شامل ہے۔ دفاعی قوت کے لحاظ سے اپنی آٹھ لاکھ فوج، ایٹمی ٹیکنالوجی، جدید ترین میزائل سسٹم اور اپنی دفاعی ضروریات کے لیے اسلحہ بنانے میں خود کفیل ہے۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور مہربانی سے اس کو اپنی کثیر نعمتوں اور وسائل سے نوازا ہے۔ لیکن دوسری طرف جب ہم ان تمام نعمتوں، وسائل اور قدرتی خزانوں کے باوجود اس کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، داخلی اور خارجی مسائل و مشکلات پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں نہایت مایوس کن اور حوصلہ شکن صورتِ حال نظر آتی ہے۔ اور وہ صورتِ حال یہ ہے کہ تمام ادارے نظم و نسق، دیانت و امانت اور کارکردگی کے لحاظ سے بد ترین حالت میں ہیں۔ اعلیٰ سطح سے لے کر ادنیٰ درجے تک کرپشن اور بد عنوانی عام ہے۔ تمام نگران ادارے خود کرپشن کا شکار ہوگئے ہیں۔ لفظ سیاست اور سیاست دان بدعنوانی، جھوٹ، فریب، وعدہ خلافی اور قومی خزانے کی لوٹ مار کا مترادف بن گئے ہیں۔
قارئین، عدل و انصاف کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، لیکن عدلیہ کے نام سے جو ’’سیٹ اَپ‘‘ ملک میں قائم ہے۔ اس نے عدل و انصاف کو عوام تو کیا خواص کے دسترس سے بھی دور کردیا ہے۔ رشوت و سفارش کے علاوہ وکلا کی فیسیں اور تاخیری حربوں سے مقدما ت سال ہا سال لٹکے رہتے ہیں۔ مقننہ قانون سازی کی بجائے اقتدار کے حصول کے لیے جوڑ توڑ، سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروفِ عمل رہتی ہے۔ انتظامیہ اپنے اختیارات اور وسائل کو مال بنانے، عہدوں اور مناصب کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہے، اور اس کی غفلت، لاپروائی اور نا اہلی کا نتیجہ عوام کو جان و مال کے نقصانات کی شکل میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔
فوج جو ملکی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور سا لمیت کا ذمہ دار ادراہ ہے۔ اس کے بارے میں عوام میں عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔ سوات اور فاٹا میں طالبان کے خلاف آپریشن کے سلسلے میں شکوک و شبہات اور عوامی محافل و مجالس میں چہ مگوئیاں عام ہیں۔ جب تمام سرکاری اور حکومتی اداروں کی یہ صورتِ حال ہے اور یہ کوئی مبالغہ آمیز اور خلاف واقعہ باتیں نہیں، تو پھر اس کا علاج کیا ہے؟ اور اس صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟ اور یہ اقدامات کون کرے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے۔
قارئین، قومی درد رکھنے والے اور قومی سوچ رکھنے والے افراد کے ذہن میں اس کا ایک ہی حل آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز یعنی وہ تمام عناصر جو قومی قیادت کے مناصب پر فائز ہیں ان کا فرض ہیکہ وہ ایک قومی کانفرنس منعقد کریں ۔ جس میں فوج، عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے تمام افراد کو اکھٹا کیا جائے، جو قوم کے کسی بھی طبقے کی نمائندگی کرتے ہوں۔ اور سب ذاتی سیاست، کریڈٹ اور فوائد سے بالا تر ہوکر قوم و ملک کے ساتھ اخلاص و تعلق کی بنیاد پر متفقہ طور پر ان مسائل کا حل نکالیں۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔