علی آباد میں ثنا خان اور دوستوں کے ساتھ مختصر تعارفی نشست کے بعد جس دوسری ’’سپیشل نشست‘‘ کی شروعات ہوتی ہیں، تو وہ ہوتی ہیں ’’کُلوُ وَشربو‘‘سے ۔ اُبلا گوشت، بھنا گوشت، سیخ گوشت، کباب اور لذیز لوکل پراٹوں کے مقابلے کے ایک طویل دوڑمیں افضل شاہ باچا سمیت سب لوگ باجماعت سرخرو ہو تے ہیں۔ ایک لمحے کو شک گزرا کہ شاید میرے یہ دوست یہاں کسی اور مقصد کے لئے نہیں بلکہ کھانے کے کسی ’’بین الالعلاقائی‘‘ مقابلے میں شرکت کے لئے آئے ہوئے ہیں اور کچھ ہی دیر میں ثنا خان ٹاپ پر آنے والے دوستوں کو پرائیڈ آف پرفارمنس کے علاوہ دیگر ایوارڈز سے نوازیں گے۔ ہم نے دن بھر کے’’فاقہ مار قافلے‘‘ کو ’’کلو وشربو‘‘کی اس جنگ میں جیت پر بذاتِ خود بھی مبارک باد دی۔ لیکن اس بابت کسی نے دلچسپی نہیں لی۔ یاد آیاکہ سوات میں ایوارڈز کا اتنا گرماگرم نیلام بازار ہو گزرا ہے کہ اب تو اس کا نام ’’وومیٹنگ‘‘ دلانے کے لئے استعمال ہو، تو مناسب ہوگا، ورنہ نہیں۔ اب تو وہاں ایورڈز وصول کرنے کے لئے انسان ناپید ہو گئے ہیں۔ اپنے خیال میں’’دیسی‘‘ اور بدیسی گوروں کو چاہیے کہ ایوارڈز ایوارڈ زکے کھیل تماشے میں بندے، ’’بندیوں‘‘کی حالتِ زار پر رحم فرماکر معاف ہی کر دیں، تو اچھا ہوگا۔ اگر ایوراڈز دینا اب ضروری ہے، تویہاں کے گدھوں، گھوڑوں کے لئے ضروری ہے۔ بعض وفادارکتوں نے سخت وقت میں گھروں کی پہرے داری کی تھی۔ گدھوں نے باربرداری میں ایک بہترین کردار ادا کیا تھا، ان کی حق تلفی کیوں ہو؟ کوؤں اور گِدھوں نے مرے ہوئے جانورں اور انسانوں کا گوشت نوچ نوچ کر ماحول اور میدان صاف کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ حق تو یہ بھی ہے کہ اُن کی پیشانیو ں پربھی ایوارڈز آویزاں ہوں،تو ہمیں یقین ہو کہ گورا سچ مچ انسان اور ’’گھوڑوں‘‘ کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا، بھاتا اور ایک لاٹھی سے ہانکتا ہے۔
ہمارے وطن کے پروفیسر سلطانِ روم جیسی شخصیات تو اُس روسی سائنسدان کی طرح ہیں جو مال و زر اور نہ شہرت و ایوارڈز میں دلچسپی لیتی ہیں۔ اُس سائنس دان نے کسی ایورڈ کے حصول سے انکار کرتے ہوئے کیا سنہرے بول بولے: ’’مجھے شہرت و دولت میں کوئی دلچسپی نہیں، کیونکہ میں مال مویشیوں کے’ ’اکھاڑے‘‘ میں دکھاوے کا جانور نہیں بننا چاہتا۔‘‘ ہاں، انسانوں میں اس وقت نوبل انعام کا سب سے زیادہ اگر کوئی مستحق ہے، تو وہ ہے بلدیاتی کونسلر سپین خان آف بلو گرام۔ حال ہی میں کئی سماج دشمن عناصر نے اس کو بڑا مارا پیٹا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ نوبل انعام اُس کو’’بذیعہ ڈاک‘‘ روانہ کیا جائے۔

ہمارے وطن کے پروفیسر سلطانِ روم جیسی شخصیات تو اُس روسی سائنسدان کی طرح ہیں جو مال و زر اور نہ شہرت و ایوارڈز میں دلچسپی لیتی ہیں۔ اُس سائنس دان نے کسی ایورڈ کے حصول سے انکار کرتے ہوئے کیا سنہرے بول بولے: ’’مجھے شہرت و دولت میں کوئی دلچسپی نہیں، کیونکہ میں مال مویشیوں کے’ ’اکھاڑے‘‘ میں دکھاوے کا جانور نہیں بننا چاہتا۔‘‘

خیر، یہ تو بات میں خود بخودایک بات سموگئی۔ ہم بات کر رہے تھے، علی آباد کی رات کی۔ کھانا کھانے کے بعدبحث و مباحثے کی بھرپور نشست جم گئی۔’’ لازوال‘‘ پاک چین دوستی کے گیم چینجرمنصوبے سی پیک اور اس کے تناظر میں اپنے وطن کے مستقبل سے متعلق کئی شہروں، دیہاتوں اور راہ چلتے مسافروں سے باتیں ہوئیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ چین نے دنیا کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا ہے۔ بہت کچھ لینا بھی ہے، شاید کچھ دینا بھی ہے جس کے لئے آسان راستے ڈھونڈنے ہیں۔ رَب ذوالجلال و مہربان ہی بہتر جانے لیکن اُن کو ڈیڑھ ارب’’نفوسہ ہائے ارضِ چین‘‘ کی ضرورتوں کا مداوا کرنے اور اُن کا پیٹ بھرنے کے لئے مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کرنی ہے۔
دوسری حقیقت، پاکستانی ریاست کے کل پُرزوں کی باتوں پر یقین کیا، کان دھرنا بھی بے وقوفی ہے۔ آج کل جو سرگرمیاں جاری ہیں، یہ اُس کی شروعات ہیں۔ پتا چلا کہ اس بارے صاف و شفاف لائحہ عمل موجود نہ ہونے، عام سٹیک ہولڈرز کو مشاورت کے عمل سے دور رکھنے، اہم معاملات میں فیصلوں کو چند شخصیات تک محدود رکھنے اور بنیادی فیصلوں کو ہر سطح پر پوشیدہ رکھنے کی روش نے اکثر لوگوں کو شدید کنفیوژن میں اور پریشانیوں میں ڈالا ہے۔
تیسری حقیقت ، اس منصوبے کی وجہ سے ہم ایک طویل اور خونی جنگ میں اُلجھے ہیں، جس کا سر ہے نہ پیر۔ اس کو جنگوں کی ماں اور ’’پراکسی وار‘‘ کہا جاتا تھا۔ اب بڑوں کے بیچ بھیس بدل کر ’’فورتھ جنیریشن وار کہا جاتا ہے۔ ایک ایسی جنگ جو کسی کو خود میں خود بخود’’ اِنگیج‘‘ کرلے۔ پتا نہیں ہم قدرت کے کسی قہر کے شکار ہیں، جغرافیائی جبر کے نرغے میں ہیں یا اپنوں پرایوں کے کسی بنی ہوئی سازشوں کے گھیرے میں ہیں؟ ہم نے سنا ہے کہ یہ کئی طاقتور ممالک کے بیچ کمزور ممالک کے وسائل ہڑپنے کی اور دنیا پر معاشی جمعداری کے حصول کی جنگ ہے، جس کا ایندھن بھی ہم ہیں، ایکسپلائی ٹیشن بھی ہماری ہو رہی ہے اور آگے بھی ہوگی۔ دو دہائیوں سے جاری جنگ نے ہمیں زندگی سے بیزار کر دیا ہے۔ ہم نے ایک لاکھ تک لاشیں اُٹھائیں، قبرستان بھروائے اور لولے لنگڑوں، یتیموں، یسیروں، بیواؤں اور ذہنی بیماروں کی پوری ایک نسل پروان چڑھائی۔ لہٰذا پاکستانی حکمران ’’پاک چین لازوال دوستی” کی آڑ میں اپنے عوام کو کسی غلط فہمی میں ڈالے بغیر قومی مفاد میں سی پیک کے منصوبوں کا جائزہ لیں۔ ٹھیک ٹھاک طریقے سے اس پر”ایڈوکیسی” کریں۔ عوام کو بہم معلومات پہنچائیں اور سب کو اعتماد میں لے کر دوستی کے ترنگ میں نہیں، قومی مفاد کے ترنگ میں فیصلے کریں۔ اس معاملے میں زیادہ پُرجوش ہونے کی ضرورت ہے، نہ قوم سے چیزیں خفیہ رکھنے کی۔ اگر ضرورت ہے، تو بس ملکی مفاد مقدم رکھنے کی۔ لوگ جانتے ہیں کہ ملکوں کے درمیان دوستی اور تعلق کی بنیادیں کیا ہوتی ہیں؟

اگلی حقیقت یہ ہے کہ محدود کاروباری حلقے کے علاوہ سی پیک کے حوالے سے عام لوگوں کی سوچ اور اپروچ اتنا مثبت نہیں، جتنا میڈیا پر اس کو اُچھالا جا رہا ہے۔ بے شک سڑکیں بن رہی ہیں۔ تعمیرات کا طوفان بپا ہے۔ آسانیوں کی آمد آمد اور کچھ ہی وقت میں کئی مشکلات قصہ پارینہ بننے جا رہے ہیں، لیکن کس قیمت پر؟ سود یا بلا سود قرضوں پر؟ اپنے وسائل کسی اور کی شرائط پر کسی اور کو سپرد کرنے پر؟ اپنی ایک مخصوص ریجن کو حالتِ جنگ میں’’ انگیج‘‘ اور پورے ملک کو خون میں نہلانے کی قیمت پر؟ اپنی قوم کو شدید بد نظمی اور ’’ٹوٹ بہ ٹوٹ‘‘ کے عمل کی طرف لے جانے کی قیمت پر؟ امریکی جیسے بے وقوف ٹرمپ اور جنگوں کے بھوکے اور خطے کے دیگر اقوام کو اپنا دشمن بنانے کی قیمت پر؟ علاقے کے ماحولیات و بایو ڈائیورسٹی کی تباہی کی قیمت پر؟ اپنی منفرد تہذیب، رسم و رواج، سماج اور طرزِ معاشرت کی قربانی کے بدلے پر؟ اپنی زراعت، باغات، جنگلات اور قیمتی درختوں کے اُجڑنے کی قیمت پر؟

اگلی حقیقت یہ ہے کہ محدود کاروباری حلقے کے علاوہ سی پیک کے حوالے سے عام لوگوں کی سوچ اور اپروچ اتنا مثبت نہیں، جتنا میڈیا پر اس کو اُچھالا جا رہا ہے۔ بے شک سڑکیں بن رہی ہیں۔ تعمیرات کا طوفان بپا ہے۔ آسانیوں کی آمد آمد اور کچھ ہی وقت میں کئی مشکلات قصہ پارینہ بننے جا رہے ہیں، لیکن کس قیمت پر؟

اگلی اور زیادہ شدید پریشان کُن حقیقت یہ ہے کہ فوائد تو سمیٹے چین، ریجن کے دوسرے ممالک اور پاکستان کے دیگر علاقے اور نقصانات برداشت کریں گلگت وبلتستان، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے لوگ۔ کیوں؟ کیا ہمیں صرف اور صرف جغرافیائی جبر کا شکار بننے دیا جا رہا ہے؟ یہ سوال پورے خطے کے ہر سمجھ دار شہری کی زبان پر ہے۔ علی آباد میں بھی اس بارے بڑا دلچسپ بحث و مباحثہ ہوا اور کئی زمینی حقائق کا پتا چلا۔ جس کے بعد’’کان پرور و روح پرور موسیقی‘‘ اور سوز و ساز کی نشست کا آغاز ہوا۔ ایسے میں رات یوں گزری کہ صبح کے سوئے ہوؤں کو دوپہر تک پتا بھی نہ چلا کہ فجر کب کا سہ پہر میں ڈھل گیا ہے۔

سات سو سال سے زیادہ پرانے، اس قلعہ کے باسٹھ دروازے ہیں۔ جو ستر سال پہلے تک ہنزہ کے حکمرانوں کے زیرِ استعمال رہا ۔ انیس سو نوے میں آغا خان ٹرسٹ نے اس کی بحالی کا کام شروع کیا جو چھے سال میں چھے کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔ بہترین بحالی پر اسے اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی طرف سے ایوارڈ بھی ملا۔

ضلع غذر کے گاؤں یاسین کے میزبان ہماری راہیں تکتے تکتے خود بھی تھک ہار کر قیلولوں میں گئے ہونگے۔ جلدی جلدی اُٹھ کر بلتت قلعہ پہنچے۔ سات سو سال سے زیادہ پرانے، اس قلعہ کے باسٹھ دروازے ہیں۔ جو ستر سال پہلے تک ہنزہ کے حکمرانوں کے زیرِ استعمال رہا ۔ انیس سو نوے میں آغا خان ٹرسٹ نے اس کی بحالی کا کام شروع کیا جو چھے سال میں چھے کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔ بہترین بحالی پر اسے اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی طرف سے ایوارڈ بھی ملا۔ یہاں پر قلعے کے تہہ خانے، غلہ گودام، جیل، شاہی دسترخوان، قیمتی دستاویزات اور تصاویر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہاں ہم نے اپنے حسین چہروں کی تصاویر کھینچوائیں اورجنگی بنیادوں پر فیس بک پر اپنی سٹیٹس اَپ ڈیٹ کرنے کے لئے شیئر کر ڈالی۔ نہ کڑوا نہ میٹھا، البتہ زرد رنگ کا گرم پانی قہوہ کے نام پر پی کردو سو روپے فی کس تاوان کی ادائیگی کی اور بھاگم بھاگ غذر کی راہ لی۔ جہاں پر غلام محمدصاحب سابقہ ایم ایل اے اور اُن کے بھائی اپنے ضروری کام کاج کو پسِ پُشت ڈال کر کافی وقت سے ہمارے انتظارمیں ہیں۔