جیسے سانس لینے میں اچانک دشواری پیش نہیں آتی، دِل میں کبھی کبھار ہوک سی نہیں اُٹھتی، اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے اور آدمی گھبراسا جاتا ہے کہ اب گیا کہ تب گیا۔ ایک عرصہ سے ایسی صورتِ حال سے اپنا باقاعدہ واسطہ پڑتا رہا۔ جب کبھی لبِ سٹرک اپنے گاؤں کے صدی پرانے وسیع و عریض مقبرہ پر نظر یں پڑتی اور اپنی اِس ’’آخری و دائمی آرام گاہ‘‘ کی حالتِ زار دیکھتا، جہاں حسرت و یاس اور ویرانی کی تصویر بنی سیکڑوں بے ہنگم قبریں خاردار جھاڑیوں میں، جنگلی زیتون اور ’’بنج‘‘ کے بے ربط و بے ڈھنگے درختوں میں، گھاس، ڈھیلوں اور ڈھلوانوں کے درمیان میں کہیں چھپی، کہیں عریاں نظر آتی۔ پھر یہی سوچ کہ اِن قبروں کے پہلو میں اور آس پاس بسیرا ہوتا ہوگا اُلوؤں، ٹڈیوں، مکڑیوں، چھپکلیوں، سانپوں، سوسماروں اور دیگر عجیب و غریب مخلوقات کا۔ یہاں کے گیڈر ’’باسی‘‘ رات کو کیا، دن کو بھی بڑے شیر بن کر گیدڑ بھبکیوں میں مصروف ہوتے ہوں گے کہ یہی اِن کا محفوظ ترین ٹھکانا ہے۔ گدھ والہانہ انداز میں اپنے ’’گِن‘‘ گاتے اور دوسروں کے کان پھاڑتے ہوں گے۔ ابابیل اینڈ کمپنی اپنی بائبل کی ’’ایڈووکیسی‘‘ کرتے ہوں گے۔ جالوں اور گھونسلوں کی بجائے بڑے بڑے ڈیرے اور بیٹھک بنائے مکڑے، کوے اور دیگر چرند پرند اپنی حدودِ اربعہ میں ڈھٹائی کے ساتھ ’’ہے جمالو‘‘ کا دھمال ڈالتے ہوں گے۔ یہ چھوڑو، کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ماضی میں راتوں کو یہ علاقہ ’’جِن شریف‘‘ اپنی سپرداری میں لیتے، جو سرِشام سڑک پرآ دھمکتے، نائٹ ڈیوٹی کی ذمہ داریاں سنبھالتے اور آنے جانے والوں کے ساتھ اٹکھیلیاں سوجتے، کسی کو دوڑاتے بھگاتے، کسی کو رُلاتے ہنساتے، کسی کے ساتھ ’’آپریشن دراغلم‘‘ وغیرہ کا ناٹک رچاتے۔ صبح ہوتے ہی وہی لوگ بات کا بتنگڑ بنا کر عجیب وغریب ’’گھڑت و من گھڑت‘‘ کہانیاں سناتے۔
قارئین، کوئی ڈیڑھ مہینا پنجاب کے مختلف شہروں کی خاک چھاننے کے بعد 8 جنوری 2019ء کو ہم اپنے سوات میں پھر سے قدم رنجہ فرما گئے۔ جنرل بس سٹینڈ سے بیٹے منظور احمد نے پِک کیا اور گاؤں کا رستہ لیا۔ جیسے ہی ’’قبرستانِ بالا‘‘ کراس کرنے لگے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ جنگل بنا مقبرہ بڑا پاک اور صاف ہوگیا ہے۔ ’’دن دھاڑے‘‘ پر ’’مقبوضہ تاریکیاں‘‘ ہجرت کر گئی ہیں۔ درختوں کے بیچوں بیچ سورج کی تازہ کرنیں چمک رہی ہیں۔ تر و تازہ ہوا آر پار جاتے ہوئے ایک طرف پودوں، پتوں اور شاخوں کو ہچکولے دے دے کر سلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری طرف سورج کی کرنوں کو دم بہ دم نت نئی سمتوں میں ایڈجسٹ کرتے ہوئے پورے ماحول کو نئے پن سے نواز رہی ہے۔ جیسے کسی بے جان چیز میں جان پیدا ہو جائے۔ جیسے موت میں زندگی سرایت کر جائے۔ جیسے سکوت میں چل چلاؤ عود کر جائے۔ وہ خوف ناک خار دارجھاڑیا ں اب نظر نہیں آ رہیں۔ بے ڈھنگے درختوں کی لٹکتی ہوئی ڈراؤنی شاخیں، وہ گھاس اور ڈھیلے وغیرہ غائب ہیں۔ درختوں کے تنوں کو سفیدچونے کا جامہ زیبِ تن کیا گیا ہے۔ جگہ جگہ رنگین وچمک دار پٹیاں لگائی گئی ہیں۔ کھنڈر بنے قبروں کو پھر سے ’’آباد‘‘ کرکے گویا اُن میں روح پھونک دی گئی ہے۔ یہ احوال دیکھ کر وہ سانس کی رکاوٹ اور دِل کی دھڑکنوں میں تیزی والی ’’بیماری‘‘ کی بجائے بڑا پُرسکون اور خوش گوار تازگی کا احساس ہوا۔ چاہا گاڑی سے اُتر کرکچھ وقت کے لیے قبرستان میں پیدل گھوما پھراجائے اور زندگی کے حسن کا لطف لیا جائے، لیکن شدید تھکاوٹ کی وجہ سے یہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ ایک سوال ’’مغز دانی‘‘ میں باربار اُٹھ رہا تھا کہ یہ معجزہ رونما کیسے ہوا، یہ تبدیلی لایا کون، اتنا بڑا کام، اتنی آسانی سے کون کر گیا؟ بیٹے نے کسی کا نام تو لیا لیکن جان پہچان نہ ہونے کی وجہ سے وہ نام محفوظ نہ رہ سکا اپنی یاداشت کے ’’محافظ خانے‘‘ میں۔ محافظ خانے کا خوبصورت نام بدنام کرنے کی بجائے اس کو ’’کھوپڑی خانہ‘‘ کہا جائے، تو بہتربھی ہوگا اور الفاظ کے ساتھ ناانصافی کاتصور بھی نہیں اُبھرے گا۔
دو تین ہفتے بعد کی بات ہے۔ نمازِ ظہر میں تھوڑی سی دیر ہے۔ ’’ایز یُوزوَل‘‘ مسجد کی آخری صف میں بیٹھے ہیں۔ دائیں جانب سرسراہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ دیکھتے ہیں، تو ایک لڑکا پہلے اپنے لیے صف میں جگہ بناتا ہے، پھر میرے ساتھ ہاتھ ملاتا ہے۔ مختصر تعارف کرتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے۔ اِشاروں کنایوں میں اکٹھے چائے پینے اور گپ شپ کرنے کی بات ہوتی ہے۔ نماز کے بعد مسجد کے پڑوس میں ایک کھلی جگہ کرسیاں رکھ کر ہم آمنے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ دھوپ کا مزا بھی لیتے ہیں، گرما گرم چائے کا چسکا بھی اور گپ شپ کا تڑکابھی۔ لیکن یہ کیا، ہمارا بیٹھنا،ابتدائی کلمات کا تبادلہ ہونا اور کچھ ہی دیر میں چھوٹے بچوں کا تانتا بندھنا اور ہمارے آس پاس منڈلانا، عجیب سا ہے۔ 7، 8 سے لے کر 15، 20 سال کی عمر تک کے بچوں کا آنا، کاکو جان، کاکو جان پکارنا، باآواز ِ بلند سلام کرنا، ہمارے ساتھ ہاتھ ملانا اور جانا۔ یوں مزید ٹولیوں کا آنا اور اسی طرح ’’ری پیٹ ایکسرسائز‘‘ کرنا، لڑکے کا بھی بڑی خوش دلی کے ساتھ سب کے ساتھ ہاتھ ملانا، اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرنا، پیار کے دو بول بولنا، خدا حافظ کہنا اور اس دوران میں میرے ساتھ بات چیت بھی کرنا۔ خوشگوار حیرت میں ڈوبے ہم اس کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔ عمر اِس دُبلے پتلے لڑکے کی بہ مشکل 25، 26 برس ہوگی۔ باتوں کی پختگی نے اس کے ’’لڑاکے اور کھڑاکے پن‘‘ کو سنجیدگی کی چادر میں چھپا لیا ہے۔ چہرے پر تھوڑی سی پتلی سی داڑھی ہونے کا شائبہ۔ سر پر پھول دار سی ٹوپی رکھے۔ دس کی دس انگلیوں میں مختلف رنگت کے پتھروں، موتیوں سے مزین انگوٹھے پہنے۔ دائیں ہاتھ میں لمبی تسبیح پکڑے وقفے وقفے کے ساتھ ایک دانے کو سہلاتے ہوئے دوسرے پر گرا تے ہوئے، نرم نرم، آہستہ آہستہ، پیار پیار سے بات کرتے ہوئے، احتیاط سے الفاظ کی ادائیگی کرتے ہوئے، جیسے تیز بولنے سے مبادا الفاظ زخمی نہ ہوجائیں، بس وہ بولتا ہے، ہم سنتے ہیں اور پوزیشن بدلتے ہیں۔ پہلی ٹانگ کو دوسری پر سوار کرتے ہیں اور اُس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہیں۔ پھر دوسری ٹانگ کو پہلی والی پر رکھتے ہیں اور اُس کی باتوں کو غور سے سنتے ہیں۔ ٹھوڑی کے نیچے کبھی دایاں ہاتھ رکھتے ہیں، کبھی پہلو بدل کر بایاں۔ کسی وقفے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، نہ سوال و جواب کی۔ وہ بولتا ہے ہم سنتے ہیں۔ وہ گویاہے اور ہم گم صم……! یہ ہے ہمارے گاؤں کے بچوں، بڑوں، بزرگوں، خواتین و حضرات سب کے کاکو جان۔
بقولِ جونؔ ایلیا:
میں ہنر مندِ رنگ ہوں میں نے
خون تھوکا ہے داد پائی ہے
پچھلی صدی کی آخری دہائی کے ابتدائی سالوں میں دُنیا کے دُکھ درد سہنے ایک بچہ عام سے گھر میں پیدا ہوتا ہے۔ مولوی صاحبان کے اصرار پر والدین اُس کا نام محمد اسحاق رکھتے ہیں۔ باپ محمد ابراہیم کب کا وطن سے پرے ایک عرب ملک قطر میں محنت مزدوری کر رہا ہے۔ بیٹا ابھی بالغ بھی نہیں ہوا کہ باپ اُس کو بھی مزدوری کے لیے قطر بلاتا ہے۔ اسحاق نے سرکار کاافسر کیا بننا تھا کہ علم کی شمعیں روشن کرتا پھرتا، آٹھویں کے بعد سکول کو وعدۂ فردا کا جھانسا دے کر گلو خلاصی حاصل کرتا ہے اور 2009ء کو قطر پہنچتا ہے۔ اور کیا کرتا وہاں، وہ بھی مزدوری کی صنعت ’’جائن‘‘ کرتا ہے۔ وقت کا پہیہ چلتا ہے اور شب و روز اسحاق کا بچپنا بھی گھلتا رہتا ہے۔ دو تین سال بعد محنت اور ایمان داری کے باعث قطر کی فوج میں بھرتی ہوتا ہے۔ جہاں اِس کو پیسا کمانے کے خوب مواقع ملتے ہیں۔ پیسا کما کما کر تھک جاتا ہے، تو 2017ء میں ملازمت سے ناتا توڑتا ہے۔ یہ بے چین روح آخر اپنے گاؤں واپس پہنچتی ہے اور لچھے لفنگوں کے ہاتھ لگ جاتی ہے۔ کمی کیا تھی؟ پیسا بڑا، سر پر دستِ شفقت رکھنے والا اور بُری سوسائٹی سے بچا کے رکھنے والاملک سے باہر۔ سو کُتّے پالنا، شکار کھیلنا، کھانا پینا اور آوارہ گردی کرنا محبوب مشغلہ بنا۔ حد ہوتی ہے ہر چیز کی۔ سو وہاں سے جلدی دِل اُکتا جاتا ہے۔ ابھی تو خدا نے اِس سے کئی بڑے کام لینے ہیں۔ گاؤں کے بے یار و مددگار لوگوں، بیماروں اور غریبوں کی حالت دیکھ کر یہ کھڑتا اور کچھ کرنے کا سوچتا ہے۔ تعلیم تو اِس نے اتنی حاصل کی نہیں کہ کوئی منصوبہ یا طریقۂ کار بناتا۔ بس چند دوستوں کو ساتھ ملا کر ’’بسم اللہ‘‘ کرتا ہے اور لاچاروں، بیماروں اور یتیموں کی خدمت میں جت جاتا ہے۔ تب سے ستائیس سالہ محمد اسحاق کا ’’کاکو جان‘‘ بننے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اِس سفر میں اس کے کئی اور دوست بھی ہم سفر بنتے ہیں۔ وقار، اکبر رشید، نعراللہ اور لونگین ایسے دوست ہیں جو زندگی کے کٹھن مراحل میں اُس کے شانہ بہ شانہ اور خیر و برکت کے ہر کام میں حصہ دار رہتے ہیں۔ وہ غریب اور بے آسرا بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے اپنا تن من دھن وقف کرتا ہے۔ ان کے لیے کتابیں، وردی اور دیگر اشیائے ضروریہ کا بندوبست کرکے سکولوں میں داخلے دلواتا ہے۔ ایک دو جگہوں پر بچوں کے لیے علا حدہ مدرسے، استاد، کھانے پینے اور رہائش کا انتظام اپنے سر لیتا ہے۔ یہاں کدھر رُکتا ہے! وہ کرائے کی عمارت میں ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بھی کھولتا ہے۔ اُس کے ساتھ میڈیکل سٹور اور لیبارٹری بناتا ہے۔ ڈاکٹر، ڈسپنسر اور ٹیکنیشن کو برائے نام تنخواہ پر کام پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ ڈسپنسری مفلسوں، یتیموں اور غریبوں کے مفت علاج کا مرکز بن جاتی ہے۔ روزانہ تیس چالیس مستحق مریض یہاں سے مستفید ہوتے ہیں۔ اگر گاؤں کے گند کی صفائی شروع کرتا ہے، تو سکول کے بچے ساتھ ہو لیتے ہیں۔ تب سے یہاں کے بچے ’’کاکو‘‘ کے دستِ راست بنتے ہیں، جو ہر وقت اس کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ مرکزی قبرستان کی انتہائی خراب حالت دیکھ کر وہ بچوں اور بڑوں کو اُٹھا کر صفائی کا کام شروع کرتا ہے، اور چند ہی دنوں میں قبرستان میں بھی زندگی کی رمق دوڑا دیتا ہے۔

کاکو جان، گاؤں والوں کے ساتھ کوکارئی مقبرہ کی صفائی کے موقع پر۔

وہ عوامی فلاح و بہبود کا کام کرتا ہے، لیکن کسی سے کوئی نقدی مانگتا ہے، نہ مدد۔ وہ کسی کام کی تشہیر کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ وہ ہر کام عام انداز میں اور خود کو ’’اِنوالو‘‘ کرکے شروع کرتا ہے۔ ایمان داری اور خلوصِ نیت کی وجہ سے لوگ خود ہی اُس کو ’’اُون‘‘ کرتے ہیں، اور خود ہی اُس میں حصہ دار بنتے ہیں۔ کسی تعریف و توصیف کی توقع اور ذاتی دلچسپی کے بغیر وہ جس کام کو ہاتھ لگاتا ہے، وہ پلک جھپکنے میں ہو جاتا ہے۔ یہ رات کو سوتا ہے، تو یہ سوچ کر کہ اگلے دن کیا کرناہے؟ اس کے جوان دوست شام کو اکھٹے ہوتے ہیں، اورفیصلہ کرتے ہیں کہ کل کرنا کیا ہے؟ اور پھرصبح صبح اُس مشن پر نکل پڑتے ہیں۔
قارئین، یہ ہے’’ کا کو جان‘‘ کی پچھلے دو سال کی تگ و دو کی کہانی۔ ہم اُس کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک طرف عام سا، سادہ سا اَن پڑھ سا لڑکا، جو عام لوگوں کی زندگی میں آسانی لانے کی جد و جہد میں جتا ہوا ہے۔ وہ اپنی بستی کے باسیوں کی زندگی میں خوشی و خمار لاتا ہے۔ دوسری طرف ہم جیسے برائے نام ’’ہائی جنٹری۔‘‘ کسٹم چور گاڑیوں میں پھرتے ہوئے، زندگی سے حسن و رعنائیاں نچوڑتے ہوئے، چوری اور سینہ زوری کے بل بوتے پر بڑے پھنے خان بنے ہوئے، بڑے بڑے ریسٹورنٹس میں خوراک کے چسکے لیتے ہوئے اور ’’ہم اُمید سے ہیں‘‘ کے چلتے پھرتے اشتہار بنتے ہوئے۔ بخدا، اپنی یہ حالت دیکھ اور سوچ کربے اختیار ہنسی آتی ہے۔ ’’بائی دی وے‘‘ دو چار دن ہوتے ہیں، شاندانہ کی ماں کے ساتھ ہم اس مقبرہ سے گزر رہے تھے۔اِس کی صفائی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہم نے اُنہیں کہا: ’’دیکھو، اِس مقبرہ کی صفائی ’’کاکو‘‘ نامی لڑکے اور اُس کے چار پانچ دوستوں نے کی ہے۔‘‘ تو اُس نے ایک نظر ِخطا اُس طرف دوڑائی اور ’’ایمپریس‘‘ ہوئے بغیر کہا، ’’کاکو نہیں ’’کاکو جان‘‘ کہو،اور سنو! یہ تو بہت چھوٹا کام ہے، اُس بچے نے چھوٹی سی عمر بہت بڑے بڑے کام کیے ہیں۔‘‘
پہچان ہو تو ایسی ہو، ورنہ نا ہو۔ کاکو جان، آپ نے ہماری سانسوں کی آمد و رفت بحال کی ہے ، دِلوں کی رگیں اور گرہیں کھولی ہیں۔ ہمیں بار بار حالتِ نزع میں جانے اور واپس آنے کے امتحانوں سے نجات دلائی ہے۔ آپ پیار و محبت اور خیرو برکت کے مینار ہیں۔آپ وادیِ کوکارئی کے ایدھی ہیں۔ آپ زندگی کی مشکل بازی جیت گئے ہیں۔مبارک ہو!
واہ فیضؔ!
ضبط کا عہد بھی ہے، شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔