واقعاتی حقیقت اور ہمارا تعلیمی و ابلاغی قالب

یہ فکر نوآبادیاتی سوچ میں پیوست ہے، جہاں پڑھائی اور لکھائی کی مہارت کو علم و فکر گردانا گیا ہے۔ یہ مہارت بہت بڑا علم گردانی جاتی ہے، جب یہ کسی غیر زبان خصوصاً طاقت کی زبان میں ہو۔ ہماری تعلیم جو کہ نوآبادیاتی ورثہ ہے، نے ہمیں یہ مہارتیں ٹوٹی پھوٹی صورت میں سکھا کر ہمیں باور کرایا ہے کہ ہمارے آبا و اجداد جاہل تھے اور ہیں۔ ہماری تعلیم چوں کہ ہمیں ہمیشہ اپنی قومیت، کردار، شناخت، ذات اور سماج کے بارے میں ایک خاص نوعیت کا تعصب ہی سکھاتی آئی ہے، جو کہ نوآبادیاتی تعلیم کا خاصہ تھی، اس لیے ہم ایک متعین قالب "Matrix” سے باہر نہیں دیکھ سکتے۔
یہ وہ قالب ہے جہاں اپنوں کی بے قدری ہوتی ہے اور پرایوں کی توصیف و تعریف۔
یہ وہ قالب ہے جہاں اپنا ماضی حقیر ہوجاتا ہے اور دوسروں کا شان دار۔
یہ وہ قالب ہے جس میں شخص کی ذات چند متعین دائروں سے باہر نہیں نکل سکتی۔
ہماری تعلیم نے ہمیں اس قالب میں خوب مقید کیا مگر ہماری بدقسمتی کہ دنیا جلد ہی پسِ جدیدت میں چلی گئی جو ایک مستقل تغیر، معاشرتی و شخصی تخریب اور انتہا درجے کی انفرادیت پروان چڑھاتی ہے۔ چوں کہ ہماری مروجہ تعلیم اس پسِ جدیدت کو نہیں سنبھال سکتی، اس لیے ہم ہمہ وقت افراتفری کا شکار ہوگئے۔
اس افراتفری کو ہمارا مقتدر حلقہ اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے ہمارے خلاف خوب استعمال کرتا ہے۔ یہ مقتدر قوتیں عوامی رائے سازی کے ذرائع مثلاً تعلیم، میڈیا اور سوشل میڈیا کوبالواسطہ یا بلاواسطہ قابو کرلیتی ہیں۔ ان ذرائع خصوصاً میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے وہ ہمارے سامنے ورچول حقیقت یا واقعاتی حقیقت رکھتی ہیں اور ہم اس کے پیچھے دیوانے ہوجاتے ہیں۔ ٹھوس حقیقت یعنی ’’سولیڈ رِیالٹی‘‘ سے ہمارا رشتہ کٹ جاتا ہے بلکہ ہم اس واقعاتی حقیقت کو ہی ٹھوس حقیقت مان لیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ پاکستان میں واقعاتی حقیقت بناکر نوجوانوں کو سوشل اور روایتی میڈیا کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے، جہاں وہ اپنے اس قالب سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اور اسی کی بدولت آج ’’نوجوان‘‘ پیروں کا ’’استاد‘‘ بنا ہوا ہے، جیسے اقبال نے خواہش ظاہر کی تھی کہ
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
جو اس واقعاتی حقیقت سے ذرّہ بھر اختلاف کرے، توکسی مروت کو خاطر میں لائے بغیر اس کو دشنام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان پیروں یا بڑوں کو ’’جاہل‘‘، ’’نکما‘‘ یا کئی دیگر نئی پاکستانی سیاسی اصطلاحات سے نوازا جاتا ہے ۔
ایسے میں اقبالؔ کا مذکورہ شعر بہت یاد آتا ہے۔ معلوم نہیں اگر اقبال آج ان واقعاتی حقائق کے دور میں زندہ ہوتے، تو ان کا کیا مؤقف ہوتا؟ لیکن ایک بات ضرور ہوتی کہ ان کو بھی مختلف ’’دشنامی القابات‘‘ سے یاد کیا جاتا۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔