پچھلے دن کے سفر کی وجہ سے میں جیسے ہی ’’آئی ہاؤس‘‘ پہنچا، تو سو گیا اور جب صبح اٹھا، تو نو بج رہے تھے۔ اس لیے میں جلدی تیارا ہوا اور ناشتہ کرنے کے بعد پبلک فورم کے لیے اپنے ’’پریزنٹیشن‘‘ پر کام شروع کیا۔ جاپان میں ہمارے لیڈرشپ پروگرام کی آخری سرگرمی پبلک فورم میں ساتوں فیلوز کو یہاں کے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے سامنے پریزنٹیشن کرنی تھی۔ میری پریزنٹیشن چوں کہ ثقافت پر تھی، اس لیے میں نے یہاں کی ثقافت ، تاریخ اور آرکیالوجی کا باریک بینی سے مطالعہ کیا تھا، جس پر میں نے تفصیل سے اپنی پریزنٹیشن تیار کی تھی۔ اس کا عنوان تھا: "Cultural Heritage Has the Power to Bind People in Harmony” میں نے اس پریزنٹیشن میں مختلف مثالوں، تصاویر اور حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ بنی نوع انسان نہ صرف اپنی ثقافت سے محبت کرتا ہے بلکہ دوسری اقوام کی ثقافت میں دلچسپی بھی لیتا ہے۔ چوں کہ پاکستان اور خاص کر سوات میں تو ہندو مت، بدھ مت اور دوسری تہذیبوں کے ثقافتی اور تاریخی مقامات کے آثار جا بہ جا موجود ہیں، اس لیے یہ نہ صرف پاکستانیوں کے لیے بلکہ ہندوؤں، بدھ مت کے پیروکاروں اور کئی دوسری قوموں کے لیے مقدس ہیں۔ اس لیے سوات اور گندھارا کے آثار ہی ہم ایشیا کی تمام قوموں کو ہم آہنگی اور امن کی لڑی میں پرو سکتے ہیں۔

راقم پبلک فورم میں اپنی پریزنٹیشن کے موقع پر بات کر رہے ہیں۔

پبلک فورم نومبر کی پہلی تاریخ کو منعقد ہوئی جس میں جاپان کے علاوہ ساتوں ممالک سے تعلق رکھنے والے وہ افراد بھی شامل تھے جو جاپان میں قیام پذیر تھے۔ تمام فیلوز نے اپنے اپنے پراجیکٹ پر سیر حاصل گفتگو کی۔ میں نے جاپان میں ان کے ثقافتی ، تاریخی اور تہذیبی پہلوؤں کو اُجا گر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ کیسے کسی ملک میں موجود ثقافتی ورثہ غیر ملکیوں کے لیے پر کشش ہوتا ہے؟ میں نے جاپانیوں کو داد دی کہ انہوں نے بڑے اچھے طریقے سے اپنا ثقافتی ورثہ محفوظ کررکھا ہے، نہ صرف اپنے لوگوں کے لیے بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی اسے پُرکشش بنایا ہے۔
سب فیلوز نے جب پرزنٹیشن ختم کی، تو دوسرے سیشن میں سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جس میں سامعین کی طرف سے کئی سوالات کیے گئے اور ہم ساتوں فیلوز نے ان کے جوابات بھی دیے۔ اس کے بعد غیر رسمی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا، جو رات دیر تک جاری رہا۔ مجھ سے کئی جاپانی اور پاکستانی افراد نے بات کی اور میری پریزنٹیشن کے موضوع اور میری دلائل کی تعریف کی۔
جب پروگرام ختم ہوا، تو میں سیدھا ’’کیکو‘‘ کے سٹورکی طرف گیا، مگر سٹور بند ہوچکا تھا۔ اس لیے میں بغیر مقصد کے ٹوکیو شہر کے ڈاؤن ٹاؤن میں پیدل واک کرنے لگا۔ پُررونق روپونگی برج کے نیچے سے گزرتے ہوئے معمول کے مطابق پیدل چلنے والوں کی چہل پہل تھی۔ میں تھوڑی دیر کے لیے بے مقصد چلتا رہا اور پھر واپس مڑ کر ’’آئی ہاؤس‘‘ آیا۔
دو نومبر کوجاپان میں ہمارا فارغ اور آخری دن تھا۔ کیوں کہ تین نومبر کو سب نے اپنے اپنے ملک واپس جانا تھا۔ مجھے سب سے مشکل کام ’’کیکو‘‘ سے رخصت لینا لگ رہا تھا۔ کیو ں کہ مجھے محسوس ہوا تھا کہ ہم دونوں کی دوستی کافی مضبوط ہوگئی تھی۔ اور ایک طرح سے وہ جاپانی گڑیا میری عادی بھی ہو چکی تھی۔ اس کواحساس ہوا تھا کہ یہ پاکستانی آدمی اس کو وقت بھی دیتا ہے، اس کی بات بھی سنتا ہے،اس کے احساسات کو اہمیت بھی دیتا ہے اور اس کے ساتھ اپنی خوشیاں بھی شیئر کرتا ہے جو ٹوکیو جیسے شہر میں ناپید چیزیں ہیں۔ میں جب صبح اٹھا، تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سامان کی پیکنگ کی۔ کیوں کہ سامان پیک کرنا ہمیشہ سے میرے لیے مشکل اور دردِ سر رہا ہے۔ پیکنگ کے بعد میں ’’آئی ہاؤس‘‘ سے ’’روپونگی ہلز‘‘ کی طرف نکل پڑا، راستے میں ہی ’’کیکو‘‘ کا سٹور تھا۔ میں نے باہر سے دیکھا، تو کیکو معمول کے مطابق گاہکوں کا سامان تھیلوں میں بند کررہی تھی اور خندہ پیشانی سے ان کو رخصت کررہی تھی۔ ’’کیکو‘‘ کو ہنستے مسکراتے دیکھ کر مجھے پہلی دفعہ جاپان سے واپس جانے کا دکھ ہوا۔ میرے دل میں پہلی دفعہ یہ خیال آیا کہ میں ٹوکیومیں ٹھہر جاؤں۔ زندگی کے باقی ایام کیکو کے ساتھ اس پُرامن جاپانی شہر میں گزاروں، مگر یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ مجھے واپس گھر جا کر اپنی فیملی کے ساتھ رہنا تھا۔ ان سوچوں میں گم میں سٹور سے آگے نکل چکا تھا کہ اچانک میرے کندھے پر کسی نے تھپکی دیتے ہوئے میرا نام پکارا۔ میں نے یکدم پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ ’’کیکو‘‘ تھی ۔’’کافی دور سے آپ کو پکاررہی ہوں، پتا نہیں کن سوچوں میں گم دنیا سے بے خبر جا رہے ہو؟یہ کیا بات ہوئی مجھ سے ملنا بھی گنوار ا نہ کیا؟‘‘ کیکو نے ہاپنتے ہوئے مروت بھرے لہجے میں کہا۔ میں نے جب اس کے چہرے کو دیکھا، تو لگا کہ وہ کافی دور سے دوڑکے آئی تھی۔ اس نے بے تکلفی سے میرا ہاتھ تھاما اور کھینچتے ہوئے سٹور کی طرف جانے لگی۔ ’’مجھے بڑا مزہ آیا، آپ واقعی مختلف ہیں، میرے ساتھ میری پسندیدہ جگہ جانے کا شکریہ۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کیکو کی انتہائی خوشی کو دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا۔ ’’کیکو! کل میری واپسی ہے۔‘‘ میں نے بہ مشکل حوصلہ کرتے ہوئے جلدی میں کہا۔ یہ جیسے اس کے لیے 440 وولٹ کا جھٹکا تھا۔ کیکو یک دم رُکی۔ ’’کل جار ہے ہو؟ اتنی جلدی، آپ نے پہلے ذکر نہیں کیا، کیوں جار رہے ہو؟ آپ تو میری امی سے بھی نہیں ملے ہیں، میں کیا کروں گی؟‘‘ کیکو نے سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دوں؟ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد میں نے کہا کہ مجھے اپنے ملک جانا ہے۔ کیوں کہ یہاں میں صرف دو مہینوں کے لیے ہی آیا تھا۔’’وہاں میرے بچے اور گھرو الے میرا انتظار کررہے ہیں۔‘‘ میں نے کیکو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔ اس کی گہری آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں اور اس کا خوبصورت چہرہ تھکاؤٹ اور پریشانی کی وجہ سے لٹک چکا تھا، جو میری بچی کھچی طاقت اور حوصلے کو ریزہ ریزہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ کچھ توقف کے بعد انہوں نے مجھ سے میری فلائٹ کا وقت پوچھا، تو میں نے بتا دیا۔ ہم اس دوران میں اس کے سٹور تک پہنچ چکے تھے۔ مجھے انتظار کرنے کا کہہ کر وہ سٹور کے اندر گئی اور تھوڑی دیر بعد واپس آئی، تو اس کا ڈریس تبدیل ہوچکا تھا۔ (جاری ہے)

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔