یہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ سے 65 سال قبل کی بات ہے جب گھوڑا موٹر کار کے فرائض انجام دیتا تھا۔ خچر کے پاس خر کاری کا رُتبہ تھا۔ بیل ’’بیلارس‘‘ ٹریکٹر کی سیٹ پر براجمان تھا۔ کارِ سرکار پر گورے کا مہرہ چلتا تھا۔ مٹی کے گھر ’’درو و دیوار‘‘ کی پابندیوں سے مستثنا تھے۔ آج سے ایک سو گیارہ سال پہلے 1907ء میں پشاور کے ’’گورے حاکمان‘‘ نے اپنی خوردنی اجناس کی ضروریات اور صوبے کی ترقی کے واسطے ایک زرعی فارم بنانے کا فیصلہ کیا۔ کافی غورو خوض کے بعد پشاور سے 9 کلومیٹر دور ایک قطعۂ زمین کا انتخاب کیا گیا، جو اُس وقت ’’ترآب‘‘ گاؤں کی ملکیت تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے خوشی کے ساتھ اپنی زمینیں حکومت کو دینے کا فیصلہ کیا۔ اُسی سال فارم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دوبیل خریدے گئے اور چند ملازمین کا انتخاب کیا گیا۔ کئی دن بعد ایک بیل بیمار ہوکر بے وقت قربانی کا بکرا بنا۔ دوسرا اپنے ’’محبوب‘‘ کی جدائی کے غم میں مگر مچھ کے آنسو بہاتا بہاتا رفوچکر ہوگیا۔ ایک بے ڈھنگا سا گورا، جس کا نصف نام ’’مسٹر براؤن‘‘ تھا اور جو اس وقت اس فارم کا انچارج تھا، کی طرف سے اس واقعے کی ایف آئی آر درج ہوئی، نہ حمود الرحمن کمیشن کی طرز پر ’’فیکٹ فائنڈنگ کمیشن‘‘ بنا۔ البتہ مزید فنڈز ملنے تک اس نے بیلچہ اُٹھا کر کھیتوں میں خود کام شروع کیا۔ پاگل شخص تھا یہ گورا سالا۔ پودوں کے ساتھ بیٹھتا گپ شپ لگاتا، ان سے پیار کرتا، ان کے سامنے بیٹھ کر کھانا کھاتا اور کہیں چھاؤں پاکر ٹیک لگاتا۔ اس کے دیکھا دیکھی میں اپنے ’’تیارلگ‘‘ پاکستانی یار لوگوں میں بھی محنت کے جذبہ نے سر اُٹھا لیا۔ لوگ صبح اُٹھتے، بیلچہ، کھرپا، کدال وغیرہ سے لیس ہوکر زمینوں میں کام کرتے اور یوں کمر ٹیڑھی کرکے جب انھوں نے اپنے ارد گرد دیکھا، تو حیران رہ گئے کہ اس وقت کا ’’ترآب‘‘ گاؤں ترقی کرتا کرتا ’’ترناب‘‘ بن گیا تھا۔ یہاں پر ترقی کے اثرات آج جی ٹی روڈ پر واقع پودوں کی ان نرسریوں سے محسوس کیے جاسکتے ہیں جو شہر سے نکل کر پبی تک سڑک کے دونوں طرف واقع ہیں۔ نرسریوں کے علاوہ شہد کی مکھیاں پالنے کا رواج عام ہوا۔ سکواش، جام جیلی، مرملیڈ اور نہ جانے کیا کیا دکانوں کے شوکیسز میں سجنا شروع ہوئے۔ علاقے کے لوگوں کو ملازمتیں ملیں اوریہاں کے زرعی ہنر مند لوگ پختون خوا کے دور دراز علاقوں کے علاوہ بلوچستان تک پہنچ گئے۔ اس ادارے کی بدولت یہاں کے لوگوں کا معیارِ زندگی دوسرے دیہاتوں سے بلند ہوا اور صوبے کی زرا عت میں واضح تبدیلی آگئی۔ پھلوں کے باغات لگانے کا رجحان شروع ہوا اور عام فصلیں اُگانے کے طور طریقے بدلنے لگے۔
1945ء میں لکھی گئی کتاب ’’گن اینڈ گولڈ‘‘ کے مصنف اس زرعی تحقیقاتی ادارے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ یہ صوبہ زرعی پیداوار میں اندرونِ ہندوستان کی غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ پشاور سے 9 کلومیٹر دور ایک سرکاری زرعی تجرباتی مرکز نے پھلوں کی پیداوار کے میدان میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ ہری پور کی زمین اس کے میٹھے خوبانیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ سوات، تیراہ اور کرم کی پہاڑیاں اور ڈھلوان سیب، اخروٹ اور قسم قسم کی ناشپاتیاں پیدا کرتے ہیں، تو یہ اس زرعی تحقیق کی وجہ سے ممکن ہوا۔‘‘
گذشتہ سوا صدی سے یہ ادارہ زرعی مشوروں کے ایک مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے اور صوبہ بھر کے علاوہ شمالی پنجاب، بلوچستان کشمیر اور گلگت بلتستان کے ترقی پسند زمیندار بھی یہاں سے پودے، بیج اور مشوروں کے حصول کے لیے آتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا یہاں کے ماہرین اپنے کام میں بے حد دلچسپی لیتے تھے۔ کام کا ایک جذبہ موجزن تھا۔ ہر آدمی متحرک رہتا۔ یوں تعمیرات بڑھتی گئیں۔ ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ مختلف ڈائریکٹوریٹ بنے۔ صوبے بھر کے مختلف علاقوں مثلاً مردان، سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، بفہ ایبٹ آباد، کوہاٹ، نوشہرہ، بنوں وغیرہ میں کوئی پندرہ زرعی تحقیقی مراکز اور سٹیشنز بن گئے، جو زرعی تحقیقاتی ادارہ ترناب کی نگرانی میں قائم ہوئے۔ اس کی بدولت پھلوں، فصلوں اور سبزیوں کی پیداواری ٹیکنالوجی اور اقسام کی پیدا وارمیں قابلِ قدر اضافہ ہوا۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ 1986ء تک یہ ادارہ صوبائی سیکریٹریٹ کے ایک اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ کے طور پر کام کرتا تھا، لیکن اسی سال خیبر پختون خوا ( تب صوبہ سرحد) اور یو ایس ایڈ کے ٹرانس فارمیشن اینڈ انٹی گریشن آف پراونشل ایگریکلچرل نیٹ ورک(ٹی پان) کے مابین ایک ایگریمنٹ کے تحت زرعی تحقیقی ادارے کو صوبے کے زرعی یونیورسٹی میں ضم کیا گیا۔ ٹی پان منصوبے میں نہ صرف اس فیصلے کے منفی پہلوؤں اور دورِ رس اثرات سے صرفِ نظر کیا گیا بلکہ مجرمانہ غفلت بھی برتی گئی۔ اس انضمام کے لیے درکار مکمل میکینزم بنائے بغیر زرعی تحقیقی ادارہ ترناب سمیت پورے صوبے کے تحقیقی سسٹم کو یونیورسٹی کی گود میں ڈال دیا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ اس سسٹم کے وسائل، فنڈز اور صوبے بھر میں اس کے مراکز سے تو مستفیدہوتی رہی، البتہ اس کی بہتری، ترقی اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ہر کوشش میں بے دلی اور کاہلی دکھاتی رہی۔ یونیورسٹی انتظامیہ خلوصِ دل سے اس سسٹم کو خود میں سمو سکی نہ ادارہ خود کو یونیورسٹی میں ایڈ جسٹ کر نے کی استعداد حاصل کر سکا، جس کی وجہ سے بڑی توقعات کے ساتھ بننے والا یہ ادارہ زوال کی طرف جانے لگا۔ زرعی یونیورسٹی میں اس محکمہ کے انضمام کے ’’بلنڈر‘‘ نے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا ستیاناس کردیا۔ آخرِ کار اس چپقلش کو ختم کرنے کے لیے 19 سال بعد یعنی 2005ء میں صوبائی اسمبلی نے ایک ’’ریزولوشن‘‘ کے ذریعے تحقیق کے کباڑا شدہ نظام کو ایک دفعہ پھر صوبائی سیکریٹریٹ کے حوالے کیا۔ 2005ء میں گراؤنڈ زیرو سے شروع کرکے اس نظام میں پھر سے بڑی مشکل سے جان توپھونک دی گئی، لیکن جب ملازمین دوبارہ محنت اور لگن سے کام کرنے میں مصروف ہوگئے، تو اس ادارے کے 50 ایکڑ قیمتی زرخیز قطعۂ زمین کو ایک ایکسپو سنٹر( نمائشی سنٹر) کے قیام کے لیے مخصوص کیا گیا، جہاں سے ایک رپورٹ کے مطابق قیمتی پودوں اور درختوں کو اُکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ چند مہینوں بعد یہاں پر زرخیز فصلات اور پودے نہیں بلکہ سیمنٹ، سریے، ریت اور بجری کے ڈھیر اور درو دیوار نظر آئیں گے، جو پشاور اور مضافاتی علاقوں کی ماحولیاتی آلودگی میں مزید اضافہ کریں گے۔ موسمی شدتوں کو مزید بڑھاوا دیں گے اورزرعی تحقیق کی سرگرمیوں میں مزید رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔
فوڈ سیکورٹی نئی حکومت کے لیے یقینا بڑا چیلنج ہے۔ یہ صوبہ کئی بار آٹے کے شدید بحرانوں کا شکار ہوا۔ہم نے 1960ء کی دہائی سے 80ء کی دہائی تک ’’فوڈ راشننگ‘‘ کا نظام بھی دیکھا۔ جب لوگ اپنے مخصوص راشن کارڈ زپر 2,4 سیر آٹا اور چینی کے حصول کے لیے راشن شاپس کے سامنے گھنٹوں کھڑے رہتے تھے۔ پھر ’’سبز انقلاب‘‘ کے بلند بانگ دعوؤں کا دور آیا۔ 90ء کی دہائی میں ایک دفعہ پھر آٹے کی قحط کی وجہ سے جنگی صورتحال دیکھی گئی۔ بعض جگہوں میں عام لوگ آٹے کے ملوں اور دکانوں پر حملہ آور ہوئے اور کئی افراد قتل بھی ہوئے۔ ہمسایہ صوبہ پنجاب نے خیبر پختون خوا کی طرف آٹے کی سپلائی روکنے کے لیے جگہ جگہ چیک پوسٹیں بنائیں۔
اس تمام تر صورتحال میں خوشی کی بات یہ ہے کہ نئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا تعلق ایک زمیندار گھرانہ سے ہے۔ وہ زراعت میں ماسٹر ڈگری ہولڈر بھی ہیں۔ موجودہ دور میں اور خاص کر ’’سی پیک‘‘ کے تناظر میں فوڈ سیکورٹی کی شدید اہمیت اُن سے بہتر کون جانتا ہوگا؟ وہ جانتے ہیں کہ یہ شعبہ پیداوار میں اضافے کے سکوپ کے علاولیبر ورک فورس، برآمدات اور ٹرانسپورٹ کے کھپت کی وسیع امکانات رکھتا ہے، جو موجودہ حکومت کے منشور کا حصہ بھی ہے اور امن کی طرف جانے والا راستہ بھی۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ مناسب لینڈیوز پلاننگ، آرگینک فارمنگ، بارانی کاشتکاری، بیکار زمینوں کی آباد کاری اور اُن میں زیتون، انگور، انار جیسے میوہ دار پودوں کی کاشت پر فوکس کرنے کے لیے صوبے کے واحد زرعی تحقیقاتی سسٹمز کو مضبوط،بااختیار اور باوقار بنایا جائے گا۔ زرعی میدان میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے بے کار پڑی سرکاری و پرائیویٹ زمینیں بیروزگار زرعی گریجوئٹس کو لانگ لیز پر یا مفت میں دیناکوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ جس کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے زرعی بنک کو برائے نام شرحِ سود پر قرضوں کی فراہمی کے لیے راضی کیا جا سکتا ہے۔ متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اس بارے بات چیت کی جا سکتی ہے۔ پہلے سال کوئی ایک لاکھ ایکڑ زمین کو زیرِ کاشت لانے کا منصوبہ بن سکتا ہے۔ جس سے کم از کم ایک لاکھ افراد کو روزگار دیا جا سکتا ہے۔ فوری طور پر ایک ٹاسک فورس بنانے کی ضرورت ہے، جو فوری، درمیانی اور طویل مدتی منصوبوں کی نشان دہی کرے اور اُن کو چلانے کے لیے لائحہ عمل بھی بنائے۔ ایک زرعی ٹاسک فورس بنانے پر بھی سوچا جاسکتا ہے۔ فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل ڈیویلپمنٹ بورڈ اور ایگری کلچر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی جیسے کام کے اداروں کو ختم کیا جانا ایک المیہ تھا، جو سیاست کا شکار ہوئے، ورنہ اُن کے فوائد بے حساب تھے اور حکومت پر بوجھ بھی نہیں تھے۔ اِن کی بحالی کے میرٹس پر غورو خوض کی ضرورت ہے،جو حکومت پر بوجھ نہیں، اور نوجوانوں، جو موجودہ حکمرانوں کی کامیابی کے انجن ہیں، کو باعزت روزگار دلانے میں ممدد و معاون ثابت ہوں گے۔ دُعا ہے کہ اللہ ہم کو مخلوقِ خدا کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے تاریخ ساز فیصلے کرنے اور اُن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ تبدیلی کا سفر سب کو مبارک ہو۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔