ڈاکٹر سلطانِ روم کا نام اُڑتے اُڑتے میرے کانوں تک بھی آ پہنچا۔ ایک خاص فاصلہ تک ایک ہی سمت کے راہی ہونے کے ناطے پبلک ٹرانسپورٹ میں آمنے سامنے یا ساتھ ساتھ بیٹھ کر سفر کرنے کے مواقع بھی شاید ملتے رہے ہوں لیکن اجنبیت کی دیوار نے ایک سرسری سی علیک سلیک سے بات آگے بڑھانے کی ضرورت کا احساس کبھی نہ ہونے دیا۔ درس و تدریس کے ایک ہی پیشہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے ایک قسم کی اُنسیت کا پیدا ہونابھی یقینا اَمرِ محال نہ تھا لیکن یہ جان کر تب مجھے ایک قلبی مسرت ملی کہ ہم دونوں مختلف اوقات میں ایک ہی مادرِ علمی (جامعہ کراچی) کے سایۂ عاطفت میں پروان چڑھے ہیں بلکہ ایک ہی شعبہ اور یکساں اساتذہ کی رہنمائی سے مستفیض ہوتے رہے ہیں لیکن ان باتوں کا بھی علم ان کی کتاب ’’ریاست سوات‘‘ ہاتھوں میں آنے کے بعد ہوا۔
جامعۂ کراچی کے شعبۂ تاریخ کا تیس پینتیس سال پرانا نقشہ ذہن میں گھوم گیا۔ ڈاکٹر ریاض الاسلام، پروفیسر عبدالرحمن اور ڈاکٹر طاہرہ آفتاب کے چہرے یادوں کے اُفق پر مہرِتاباں بن کر جگمگائے۔ سونا مائی رستم جی جو اُردو پڑھنا نہیں جانتی تھیں، اس لیے مجھ سے میرے ہم جماعتوں کے پیپر پڑھواکر انھیں نمبر دیتی تھیں۔ ان سایہ دار پیڑوں کی مہربان چھاؤں نے شب و روز کی جھلستی پیشانی پر اپنی ٹھنڈی انگلیاں رکھ دیں۔ ذہن اُن ایام کی بھول بُھلیوں میں گُم ہو گیا۔ تاریخ کی کتابیں پڑھنے کا شوق تو لڑکپن سے تھا لیکن مجھے اصل عشق تو شعر و ادب سے تھا، اس لیے وسطِ سفر میں پٹڑی بدل کر انگریزی ادبیات میں ماسٹر کیا۔ پر شعبۂ تاریخ سے اپنائیت کا رشتہ برقرار رہا۔ پروفیسر عبدالرحمن کی یہ بات ’’بھئی، تم یونی ورسٹی میں کہیں نظر آجاؤ، تو میں تمہاری حاضری لگادیتا ہوں۔‘‘ آج بھی نہیں بھولی۔
یادوں کی کتاب کی ورق گردانی دراصل عمرِ عزیز کے کھوئے ہوئے خزینے کو واپس پانے کی خواہش کے سوا کچھ نہیں۔ ناممکن کو ممکن بنانے کی یہ کوشش کسی نہ کسی حد تک سرور انگیز تو ضرور ہوتی ہے۔ کچھ دیر کے لیے کامرانی کا احساس رگ و پے میں دوڑ کر سر شار کر دیتا ہے۔ لگتا ہے کھوئے ہوئے رات دن لوٹ آئے ہیں۔ میں بھی کچھ دنوں تک اُس دور کی بے فکری و بے اختیاری کے اختیارمیں رہا۔ اس رو میں اس کتاب کو پڑھتا چلا گیا۔ شاید اس دوران پہلی بار یہ خیال آیا ہو کہ اس کتا ب کے دروازے اُس وسیع اُردو دان طبقہ کے لیے بھی کھول دینے چاہئیں جو شوق و ذوق رکھنے کے باوجود انگریزی میں استعداد کی کمی کی وجہ سے اس کتاب کی پُرلطف مصاحبت سے ابھی تک محروم ہے۔ پھر اپنے بہت سے شستہ ذوق رکھنے والے دوستوں کو اس بات پر رنجیدہ دیکھ کر اُن کی مشکل کو آ سان کرنے کی ٹھان ہی لی۔
یہ وادئی سوات جس کے حسن کا چرچا زبان زدِ خاص و عام رہا ہے، نہ جانے کب سے اور کہاں کہاں سے مشتاقانِ دید و تشنگانِ جمال یہاں دیدہ و دل کی سیرابی کی غرض سے آتے رہے ہیں۔ آج جس کا حال پاکستان کا مستقبل بچانے کے لیے خونم خون ہے اور ایک مجرمانہ ابہام میں ملفوف ہے لیکن اس کے ماضی کے بارے میں انتہائی عرق ریزی اور دقّتِ نظر سے کام لے کر بنائی گئی اس سچی تصویر تک آسان رسائی یقینا اس وادی کے دل زدہ باشند وں کے ساتھ ساتھ سب اہلِ وطن کا حق ہے۔ اور باتوں کے علاوہ شاید اس بات نے بھی مجھے ترجمہ کی اس وادئی پُر خار میں قدم رکھنے پر آمادہ کیا۔ معلو م تھاکہ یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس بھاری پتھر کو جب اُٹھایا، تو کئی بار چوم کر واپس اُسی جگہ رکھنے کی صدا نہاں خانۂ دل سے اٹھی لیکن دوست و احباب کے مسلسل استفسار سے ’’کہاں پہنچے‘‘، ’’کتنا کام رہ گیا‘‘ اور ’’کتنا انتظار کرنا ہوگا‘‘ نے حوصلہ ٹوٹنے نہ دیا۔ حالاں کہ اس دوران ہماری دربدری کاعذاب جاری تھا، اور امن و سکون کی منزل بھی کوسو ں دور تھی، جو ایسے کام سرانجام دینے کے لیے لازم ہے۔ جب ترجمہ مکمل ہوا، تو کمپوزنگ کا ایک طویل صبر آزما مرحلہ شروع ہوا۔ جس سے پسینے چھوٹ گئے۔ خدا خدا کرکے یہ منزل بھی آہی گئی۔
حسنِ اتفاق سے سلطانِ روم کا تبادلہ بھی اُسی کالج میں ہو گیا تھا جہاں میں پڑھاتا ہوں، جس سے باہمی مشاورت کا عمل آسان ہوگیا۔ انہوں نے تحقیق و تصنیف کی اپنی دیگر مصروفیات کو معطل کرکے ’’پروف‘‘ پڑھنے میں مدد کے علاوہ نامانوس ناموں کی صحیح ادائیگی اور مبہم مقامات کی وضاحت و صراحت کے لیے وقت نکالا، جس کے لیے میں اُن کا مشکور ہوں۔
ترجمہ کے اس لمبے سفر میں حقِ رفاقت اگر کسی شخص نے صحیح معنوں میں ادا کیا، تو وہ جناب شان الحق حقّی مرحوم ہیں، جن کی اوکسفرڈ انگریزی اُردو ڈکشنری نے پیشانی پر بَل ڈالے بغیر ہر سوال کا بروقت جواب دے کر اس مشکل راستہ کے سفر کو آسان بنا دیا۔
اس کتا ب کے حسن و قبح پر رائے زنی میرے لیے تضیعِ وقت کے زمرے میں آئے گی۔ پشتو زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے:’’چہ مخ مِ غمے دے نو سہ مِ کمے دے‘‘ یعنی ہیر ے جیسی صورت کے ہوتے مجھے کس بات کی کمی؟ البتہ اس کتاب کو اردو ترجمہ میں پڑھنے والوں کو میں یہ بتانا ضرور ی گردانتا ہوں کہ اس کتاب کی تکمیل، تحقیق و جستجو انتہائی دقیق مشکل راہوں سے گذر کر ہوئی ہے۔ مصنف نے حقائق جاننے کے لیے کئی برسوں تک مسلسل تگ ودو کی ہے۔ کوئی بات بغیر کسی مستند حوالہ کے نہیں کی۔ ریسرچ کے کسی وقیع کام کے لیے متعین حدود و قیود کا پوری طرح سے خیال رکھا ہے۔ اس لیے فصل در فصل کتابیات و حوالہ جات کی تفصیل دی گئی ہے۔ میں نے ان کی اجازت سے عام قاری کی سہولت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہر باب کے بعد دی گئی اُس تفصیل کو نظر انداز کرکے صرف اُن اندراجات کے ترجمہ تک خود کو محدود رکھا ہے، جن میں کوئی نئی بات یا کسی بات کی مزید صراحت کی گئی ہو۔ تحقیق کی راہ پر گامزن قاری اصل انگریزی کتا ب میں اُس پوری تفصیل کو پڑھ سکتے ہیں، جو ہر باب کے آخر میں حوالہ جات کی صورت میں موجود ہے۔ بعض صورت میں یہ سینکڑوں اندراجات پر مشتمل ہے۔
اصل کتا ب کے آخر میں مأخذ کی جو تفصیل درج ہے، اُسے البتہ اُردو ترجمہ میں بھی برقرار رکھا گیا ہے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔