ملالہ نے گذشتہ چار دنوں میں پاکستان کی جو خدمت اور مدد کی ہے، نااہل لوگوں کی پوری فوج، پوری زندگی میں بھی نہیں کر سکتی۔ یہ بات سمجھنے میں کچھ لوگوں کو وقت لگ سکتا ہے، لیکن کوئی بات نہیں، قومی معاملات میں وقت لگتا ہے۔ پختونوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ باقی پاکستان اور خاص طور پر پنجاب کے لوگ پختونوں کے حالات اور معاملات، خاص طور پر احساسات کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے، نہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کو سب پتا ہے اور پختون جن حالات کا رونا رو رہے ہیں، یہ ان کی کم علمی وغیرہ ہے۔ پنجاب میں نہ لوگوں کو پتا ہے، نہ وہ جاننا ہی چاہتے ہیں کہ افغانستان سرکاری طور پر نہ سہی، روایتی طور پر پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد کو متنازعہ قرار دیتا ہے اور اٹک اور جہلم تک ایک خام دعویٰ رکھتا ہے۔ یہ ایک غیر سرکاری، غیر منطقی اور غیر دانشمندانہ دعویٰ ہے اور منفی نتائج کا حامل ہے۔ اقوامِ متحدہ میں افغانستان شاید آخری ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ دہلی اور ماسکو سے مل کر پاکستان کے خلاف بہت سے سازشی منصوبوں میں حصہ لیا۔ خود بھی نقصان اٹھایا اور پاکستان کو بھی تکلیف پہنچائی۔

اقوامِ متحدہ میں افغانستان شاید آخری ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ (Photo:elnashra.com)

اس وقت پاکستان دہشت گردی کی جنگ سے کامیابی کے ساتھ بچ نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ افواجِ پاکستان دہشت گردوں کی سرکوبی میں تقریباً کامیاب ہو چکی ہیں۔ سول سائڈ پر جمہوریت بھی پوری دھائی کا سفر طے کرکے کامیابی کے ساتھ اگلے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔ اس سفر میں فوج اور سیاست دونوں سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ سیاست کو تو لوگ پہلے سے کوس رہے تھے، لیکن اب فوج کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ فوج پر تنقید دراصل ایک نئی پیش رفت ہے۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوج نے بڑا کام کیا ہے۔ اگر یہ فوج نہ ہوتی، تو ملک کو وارلارڈازم سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا، لیکن اس کام میں فوج سے بہت سی غلطیاں collateral damageبھی ہوئی ہیں، جن پر لوگوں کو بجا طور پر شکایات ہیں۔ دکھ کی بات ہے کہ یہ شکایات سنگین نوعیت کی ہیں۔ سوات، قبائل اور پختونخوا کے لوگ دس سال تک یہ سب کچھ سہتے رہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح اپنی فریاد کریں۔ جب آپ کے گھر کی تلاشی ہو، لائسنس یافتہ اسلحہ بھی ضبط کیا جائے۔ لاکھوں کی آبادی والے منگورہ شہر کے پورے پورے محلے کے بزرگوں، جوانوں اور مریضوں کی شناخت پریڈ ہو۔یہ کہانی بہت لمبی ہے۔گمشدگی سے شروع ہوتی ہے اور مسخ شدہ لاشوں پر بھی ختم نہیں ہو رہی ہے۔ ایسے میں جب منظور پشتین اٹھتا ہے اور ان موضوعات پر بولتا ہے، تو مجھ سمیت ہر پشتون کے دل کی بات کرتا ہے، لیکن جیسا کہ میں نے شروع میں کہا ہے کہ پنجابی بھائی اس بات کو سننا چاہتے ہیں نہ سمجھنا۔

عام لوگ دل وجان سے پشتین کی حمایت کر رہے ہیں۔ (Photo: The News International)

اس معاملے کا ایک اور پہلو ہے۔ وہ بار بار کہتا ہے کہ اگر میرا ایک بھی مطالبہ آئین سے متصادم ہے، تو میں اس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہوں۔ عام لوگ دل وجان سے پشتین کی حمایت کر رہے ہیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ پاکستان مخالف عناصر پشتین کی مقبولیت کو پاکستان مخالف تحریک کا رنگ دینا چاہتے ہیں اور مذہبی دہشت گردی کے بعد ایک قوم پرستانہ کشمکش کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں ملالہ یوسف زئی پاکستان آتی ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے زیادہ پاکستان مخالف قوتوں میں مقبول ہے اور
’’مستند ہے اس کا فرمایا ہوا‘‘

لکھاری کی ملالہ یوسف زئی اور ضیاء الدین یوسف زئی کے ساتھ فوٹو۔

تو دیکھیے، اس مستند ایجنٹ کی آمد سے کیا ہوا؟ اس کی آمد کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی فتح قرار دیا گیا۔ اس نے کہا کہ پاکستان بہت بدل گیا ہے۔ حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ وہ جمہوری عمل کے تسلسل کو ایک نمایاں کامیابی قرار دیتی ہے۔حکومت اور فوج دونوں کے کردار کو سراہتی ہے۔ سیاستدانوں سے کہتی ہے کہ صحت اور تعلیم کو منشور کا حصہ بناؤ۔ اگلے انتخابات سے امید وابستہ کرتی ہیں اور پوری دنیا کو پاکستان کے بارے میں ایک نہایت مؤثر پیغام دے کر چلی جاتی ہے۔ میں اور آپ تو ملالہ کو نہیں مانتے لیکن پاکستان کے اندر کے پاکستان مخالف عناصر سمیت پوری دنیا اسے مانتی ہے کہ جب ملالہ نے کہہ دیا ہے کہ ’’پاکستان جیت رہا ہے، تو ٹھیک ہی ہوگا۔‘‘

………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔