آج کی نشست میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ دوسروں کی چیزوں کا استعمال اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں۔ چوں کہ ہمارے ہاں یہ بات کثرت سے پائی جاتی ہے کہ ہم دوسروں کا مال یا کوئی اور چیز بغیر اجازت کے استعمال کرکے اپنی ضرورت میں لاتے ہیں جوکہ قرآن اور حدیث کی رو سے جائز نہیں۔ ایک حدیث میں حضورؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے کسی ساتھی یا دوست کا سامان نہ مذاق میں لے اور نہ سنجیدگی میں۔ ایک چیز دوسرے کی ملکیت ہے، تو آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ اس کی اجازت بلکہ اس کی خوش دلی کے بغیر وہ چیز استعمال کریں یا اس کو قبضہ میں لیں۔‘‘ ایک اور حدیث میں جناب رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا۔ کسی بھی مسلمان کا کوئی مال اس کی خوش دلی کے بغیر دوسرے کے لیے حلال نہیں۔ اس حدیث میں حضورؐ نے اجازت کا لفظ استعمال نہیں فرمایا بلکہ خوش دلی کا لفظ استعمال فرمایا۔ مثلاً آپ نے کسی شخص سے ایسی چیز مانگ لی کہ اس کا دل تو نہیں چاہ رہا ہے لیکن آپ کے دباؤ میں آکر اس نے وہ چیز دے دی اور اندر سے اس کا دل خوش نہیں ہے۔ اُس صورت میں اگر آپ اس کی چیز استعمال کریں گے، تو آپ کے لیے اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے اپنے شاگرد امام ابو یوسف ؒ کو یہ وصیت فرمائی کہ جب تم کوئی چیز خریدو یا کرایہ پر لو، تو جتنا کرایہ اور جتنی قیمت عام لوگ دیتے ہیں، اس سے کچھ زیادہ دے دو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے کم دینے کی وجہ سے علم اور دین کی بے عزتی اور بے توقیری ہو۔ جہاں اس بات کا سو فیصد مکمل یقین ہو کہ دوسرا شخص نہ صرف یہ کہ اس کو استعمال کرنے کی اجازت دے گا بلکہ وہ خوش بھی ہوگا، تو اس صورت میں اس چیز کا استعمال کرلینا جائز ہے۔ہمارے معاشرے میں اس بارے میں بہت بے احتیاطی پائی جاتی ہے۔ مثلاً ہم دوسرے شخص کے گھر مہمان بن کر گئے، اب اگر اس کے گھر کی کوئی چیز آپ کو استعمال کرنی ہے، تو استعمال کرنے سے پہلے یہ سوچو کہ میرے لیے اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ اور اس کے استعمال کرنے سے میزبان خوش ہوگا یا اس کے دل میں تنگی پیدا ہوگی؟ اگر تنگی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، تو پھر یہ جائز نہیں۔
اسی طرح آج کل چندہ کا مسئلہ ہے۔ یہ چندہ خواہ کسی بھی نیک مقصد کے لیے ہو، چاہے مدرسے کے لیے یا مسجد کے لیے یا جہاد کے لیے ہو۔ اگر چندہ کرتے وقت کسی موقع پر ذرا سا بھی دباؤ کا عنصر آئے گا، تو یہ چندہ حرام ہوگا۔ یا کوئی شخص دل سے اپنی خوشی سے چندہ دینا نہیں چاہتا، مگر دوسرے لوگوں کے شرم کی وجہ سے دے دیا، تو یہ بھی جائز نہیں۔ اس لیے کہ اس میں اس کے دل کی خوشی شامل نہیں ہے۔ (مفتی محمد تقی عثمانی، اصلاحی خطبات)
اسی طرح اگر سکول میں یا مدرسہ میں استاد یا کوئی اور شخص بچوں سے کسی کام کے لیے یا کسی پروگرام کے لیے پیسے جمع کرتا ہے اور اس میں کوئی طالب علم اپنی مرضی سے پیسے دینا نہیں چاہتا لیکن دوسروں کی شرم کی وجہ سے یا کسی دباؤ کی وجہ سے دے دے، تو اس کا استعمال کرنا بھی جائز نہیں۔ اس طرح اگر تم نے کوئی چیز عاریتاً استعمال کے لیے لے لی ہے اور کسی نے خوش دلی سے تمہیں دے دی ہے۔ لہٰذا جب تمہاری ضرورت پوری ہوجائے، تو پھر اس چیز کو جلد از جلد لوٹا دو۔ حدیث میں ہے کہ جب تم نے کسی وقت دوسرے کی لاٹھی بھی لے لی ہے، تو اس کو واپس کر دو۔ اس بارے میں بھی ہماری کوتاہیاں اور غفلتیں ہوتی ہیں۔ ایک چیز کسی ضرورت کی وجہ سے کسی سے لے لی تھی، اب وہ گھر میں پڑی ہے اور واپس کرنے کی فکر نہیں تو یہ اچھی بات نہیں۔ ہمارے لیے حدیث میں یہ اصول ذکر ہے کہ کسی کا مال اس کی خوشی اور رضامندی کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔