کہا جاتا ہے کہ وطنِ عزیز میں کینسر کے مریضوں کی زیادہ تعداد سوات کے ضلع میں ہے۔ تفصیلی رپورٹ میں نہ پڑھ سکا ہوں، لیکن جو سنا ہے وہ یہی ہے کہ "حکومت اس مسئلے پر غور کر رہی ہے۔”
سوات کے باشندے کی حیثیت سے میں دیکھتا ہوں کہ واقعی ہم ہر علاقے سے اس مرض کے مریضوں کے بارے میں سنتے ہیں۔ فلاں کو کینسر ہے، فلاں کو کینسر ہے۔ یہ فقرے سوات میں عام ہیں۔ کینسر جہاں ایک شدید تکلیف والا مرض ہے، وہاں اس کا علاج بھی کافی مہنگا ہے اور المیہ یہ بھی ہے کہ اس کے بیشتر مریض مرجاتے ہیں۔ اموات کے اپنے معاشرتی اور معاشی منفی اثرات ہوتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کینسر کی بڑی وجوہات میں زہریلا مواد بدن میں جانا سب سے اہم ہے۔ بالغ افراد میں فکرمندی اور معاشی و معاشرتی پریشانیاں کینسر، شوگر اور دل و دماغ کی بیماریوں کو پیدا کرتی ہیں، لیکن زہر خوراکی سب سے اہم ہے۔ پورا ملاکنڈ ڈویژن پنجاب وغیرہ کے جعل سازوں کی بڑی مارکیٹ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں کی کمزوریاں اور عوام کی خودسری زہر خوراکی کی وجوہات ہیں۔ معاشرہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ قدرتی کھاد کی پیداوار کم ترین ہوگئی ہے۔ پہلے پانچ دس مکانوں کے ساتھ ایک ڈیران (گھریلو کوڑا کرکٹ ڈالنے کے لیے مخصوص کی گئی جگہ) ہوا کرتا تھا، جس میں قدرتی کھاد بنتا، جو فصلوں کو ڈالا جاتا تھا۔ زیادہ اور جلد پیداوار اور قدرتی کھاد کی کمیابی نے کیماوی کھاد کے استعمال کو بڑھا دیا۔ ماحول کی گندگی، پودوں اور درختوں کی کٹائی نے اور پرندوں وغیرہ کی کمی نے فصل کے لیے نقصان دہ کیڑوں کو زیادہ کر دیا، جن کے خاتمے کے لیے زہر والے سپرے کا رواج عام ہوگیا۔ دودھ، مچھلی اور گوشت وغیرہ کو جلدی خراب ہونے سے بچانے کے لیے فارملین اور دوسرے کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں۔ مچھلی، گوشت اور دودھ سوات کو پنجاب سے آتا ہے۔ اس طرح مرغی اور مچھلی کے گوشت میں کیمیکلز ضرور ہوتے ہیں۔ رنگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں خوراکی اشیا بنانے والوں کی تربیت، حکومتی ادارے سرے سے کرتے ہی نہیں۔ آلودہ پانی کا استعمال اور ملاوٹ ہماری مارکیٹ میں عام ہے۔ ڈاکٹرز کے نسخے کے بغیر ادویہ کا استعمال (خصوصاً مردانہ ضرورت کی) اور بھارتی دوائیاں انسانی بدن کے اندر مختلف پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں۔ درختوں اور پودوں کے خاتمے اور نئے درختوں اور پودوں کے نہ لگانے کی وجہ سے فضا میں زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کی زیادتی بڑا مسئلہ ہے۔ کاربن ڈائی اکسائیڈ سورج کی زہریلی شعاعوں سے بچانے کے حصار کو پھاڑتی ہیں۔ پلاسٹک اور خوراک میں کیمیکلز کا استعمال بدن پر چارج پیدا کرنے والے کیڑے سب پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔ شور سے اور دھویں سے انسانی دماغ اور بدن شدید متاثر ہوتا ہے اور قدرتی دفاعی نظام کمزور ہوجاتا ہے۔ زیادہ بلڈ پریشر، شوگر، جوڑوں کے درد اور موٹاپا میں ان آلودگیوں کا کردار ضرور ہوتا ہے۔

ہم بات سوات کی کر رہے تھے۔ سوات (بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن) کے لوگ آزادی پسند ہیں۔ یہ قوانین کے نفاذ اور مختلف پابندیوں کو آسانی کے ساتھ نہیں مانتے بلکہ ریاستی کوششوں کے آگے کامیاب رُکاؤٹیں ڈالتے ہیں۔ الراشی و المرتشی کا کردار یہاں زیادہ ہے۔ اس لیے ملک کے دوسرے حصوں کے خود غرض افراد کے لیے یہ علاقہ موزون ترین ہے اور یہاں لاقانونیت اور مارکیٹ میں بددیانت افراد کی زیادتی سے خوب فوائد حاصل کرتے ہیں، وہ ہر وہ چیز یہاں لاکر فروخت کرتے ہیں جن کا کاروبار نیچے اضلاع میں مشکل ہوتا ہے۔ بڑے مسائل سوات کے عوام حل نہیں کرسکتے، لیکن وہ مسائل جو یہاں کے عوام حل کرسکتے ہیں، اُن کی طرف بھرپور توجہ دینا ضروری ہے۔ مثلاً اگر متعلقہ تاجر اپنے زیادہ منافع کی لالچ چھوڑدیں اور عمدہ اور بے ضرر (جن کے فروخت میں منافع کم ہوتا ہے) اشیا کو فروخت کیا کریں، تو کافی فائدہ ہوسکتا ہے۔ اس علاقے کے لوگ درخت اور پودے آسانی کے ساتھ اُگا سکتے ہیں۔ اس قدرتی موزوں علاقے کو پھر سے سر سبز بناکر فضائی صفائی کرسکتے ہیں۔ مولانا حضرات اور ڈرائیورز حضرات اگر اونچی اور کرخت آوزوں کا خاتمہ کریں، تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔
سوات بھر میں لوگ خود صاف پانی میں فضلہ اور کوڑا اور گھروں کھیتوں کا گندا پانی ڈالتے ہیں۔ یہ رواج پورے ملک میں ہے۔ اگر حکومت دریا کے دونوں کناروں پر گندے پانی کے لیے نکاس نہریں بنائے، تو مقامی عوام کے ساتھ ساتھ نیچے اضلاع کو صاف اور میٹھا پانی ملے گا۔ مذہبی لباس میں جرائم پسند لوگوں کی تعداد یہاں زیادہ ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ عوام کا زیادہ جھکاؤ مذہبی افراد کی طرف ہے اور اپنے مسائل کا حل ان افراد سے پوچھتے ہیں جو قدیم روایات کے حامل ہوتے ہیں۔ یوں ذہنی الجھاؤ اور نا محسوس پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں، جو کینسر جیسے امراض کو پیدا کرتی ہیں۔ میونسپل لوگوں کی کوتاہ نظری اور مالدار لوگوں کی خود سری نے سوات وغیرہ میں اتنی گندگی پیدا کی ہے جس کی صفائی اب ممکن نہیں۔ اس لیے قدرت کے قانون کے مطابق اب ان خود سریوں کی سزا سب کو مختلف شکلوں میں ملتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سوات وغیرہ کے عوام اور خواص سب ایک اتفاق کے ساتھ اس علاقے میں قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی نیک کاموں میں مدد کریں۔ فی الوقت تو ہم لوگ گناہ اور برائیوں پر اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ سوات میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے، جس سے پریشانیاں اور غربت پیدا ہوتی ہے جو آگے جاکر انسانی جسمانی دفاعی نظام کو متاثر کرتی ہے۔ عوام کی اجتماعی آگاہی، عمل اور حکومت کے معیاری اقدامات سے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔