اٹھائیس فروری 2018ء کو میڈیا نے یہ خوشخبری سنائی کہ افغانستان کے صدر محترم اشرف غنی نے اپنے باقاعدہ بیان میں طالبان کو غیر مشروط مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ اس طرح امریکہ نے بھی پاکستان کی پالیسی کے بارے میں اچھے اشارے دکھائے ہیں۔ دوسری طرف پیرس میں حال ہی میں منعقدہ ’’فائی نانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ کی بیٹھک میں پاکستان کو غیر شفاف ممالک کی فہرست میں ڈالا گیا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ تین ماہ کی آزمائشی عرصے کے بعد پاکستان پر سخت مالیاتی پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ ایک اور خبر میں بنگلہ دیش، فلپائن اور ایک افریقی ملک (غالباً غیر مسلم) میں داعش تنظیم کی موجودگی کا ذکر ہے۔ گویا کہ داعش غیر اسلامی ممالک میں بھی کام کرتی ہے۔ افغانستان میں داعش کی موجودگی بعض خبروں سے معلوم ہے۔
قارئین، دنیا میں مسائل کے حل کے دو طریقے رائج ہیں یعنی مثبت طریقہ اور منفی طریقہ۔ دو افراد ہوں یا دو اقوام ہوں یا دو گروہ ہوں، ہر جگہ یہی دو طریقے ہیں۔ اب وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جن کے درمیان موجود مسئلہ مثبت طریقے سے حل ہوجائے۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ منفی طریقوں اور اقدامات سے مسائل حل نہیں ہوتے لیکن تباہی و بربادی کے ساتھ مزید الجھتے ہیں۔
صدر اشرف غنی صاحب کے اعلان سے جہاں مثبت سوچ والے افراد کو خوشی ہوگی، وہاں منفی عناصر کو اضطراب ہوگا اور وہ مختلف طریقوں سے صدر صاحب کے اچھے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے مختلف اقدامات اور شرارتیں کریں گے۔ اس اچھے منصوبے کے حامی افراد، اداروں اور ممالک کو زیادہ صبر، تحمل اور تدبر سے کام لینا ہوگا۔ منفی قوتوں کو شکست دے کر مثبت قوتوں کو کامیاب کروانا نہ صرف بہت مشکل کام ہوتا ہے بلکہ یہ اعصاب شکن صبر اور برداشت و تدبر کا بھی تقاضا کرتا ہے۔
شمالی کوریا کے اقدامات نے امریکہ کو سیخ پا کیا ہوا ہے۔ سخت ترین اقدامات کی صدر ٹرمپ کی دھمکی کے بعد اب امریکہ کا مذاکرات کی طرف عندیہ ایک خوش خبری ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی اشرافیہ بھی منفی اقدامات کی جگہ مثبت طریقوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان بہتر رابطے بھی خوش آئند ہیں۔ روسی چینی بلاک کو مضبوط کرنے سے بھی دنیا میں طاقت کا توازن درست ہوجائے گا۔ فی الوقت تو ہر طرف امریکہ کا توتی بولتا ہے۔
چوں کہ افغانستان میں حالات کو درست کرنے میں پاکستان کے مؤثر کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس لیے اس مقصد کے حصول کے لیے افغان حکومت، پاکستان اور طالبان وغیرہ کو اعصاب شکن صبر، تدبر، دور اندیشی، برداشت اور ایک دوسرے کی مشکلات اور مسائل کو سمجھنے اور مخالف قوتوں کے کردار سے ہوشیار رہ کر مسلسل کام کرنا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں، اس میں کچھ سچی اور کچھ جھوٹی رکاؤٹیں موجود ہیں۔ کچھ لوگوں اور کچھ ممالک کی سفلی ضروریات اس بہتری کی طرف سفر کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گی۔ یہ اعلان بھی خوش آئند ہے کہ کابل حکومت نے طالبان کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کرلیا ہے۔
بھارت کی سوچ اور کردار، جیو پولی ٹیکل سائنس کے طلبہ کے لیے کافی دلچسپ ہے۔ سراب کے پیچھے بھاگنے سے اپنی ہلاکت ہی ہوتی ہے اور ہم دعا گو ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے اندر اُس کے وفادار حقیقت کو تسلیم کرکے سراب کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیں گے، تاکہ دونوں بلکہ تینوں ممالک کے عوام کو امن، ترقی اور خوشحالی نصیب ہو۔ لا محدود زمانے تک عدم برداشت تباہ کن ہوگا۔ ہمارے اپنے خطے میں بلکہ پوری دنیا میں پُرامن بقائے باہمی کے لیے احترام اور صبر کے ساتھ مذاکرات کے طریقے استعمال کرنا چاہئیں۔
مذکورہ بالا پیرس کانفرنس کے پاکستان کے خلاف مختلف مجوزہ پابندیاں ملک کے اندر شدید مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔ ملک و قوم کو خراب حالات کے خراب نتائج کو وطن عزیز کے اندر خود غرض، کرپٹ اور غدار عناصر خطرناک حد تک بڑھائیں گے۔ اس لیے اُن کی طرف خصوصی توجہ ضروری ہے۔ حکومتوں کی فضول خرچیوں، کمیشن مافیا اور ٹھیکیداری بددیانتوں نے اور انتظامی نااہلیتیوں نے وطن عزیز کو شدید نقصانات پہنچائے ہیں۔ بیرونِ ملک پاکستانی مزدوروں نے بہت سرمایہ کماکر وطن بھیجا ہے اور بھیج رہے ہیں، لیکن معلوم نہیں کہ وہ سرمایہ ’’ہونڈی‘‘ یا کسی اور نظام کے تحت ریاستی خزانے میں جاتا ہے یا کسی چور سرنگ کے ذریعے کسی اور کے پاس پہنچ جاتا ہے؟ علمائے معاشیات اور مقتدر طبقے کو اس حوالہ سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔
کرپشن کے خلاف جاری کارروائیاں بہت اچھی ہیں۔ ہر وہ شخص جو کسی نہ کسی شکل اور مقدار میں کرپشن کرتا ہو، اس کی مخالفت کرے گا، لیکن یہ مہم جاری رہنی چاہیے۔ پاکستان پر ممکنہ معاشی پابندیوں سے نمٹنے اور عوام کو مشکلات سے بچانے کے لیے ملک کے اندر غیر معمولی اقدامات کرنا ضروری عمل ہوگا۔ اس کے لیے ایران، شام اور شمالی کوریا کے تجربات سے سیکھنا برا نہیں ہوگا۔ سخت قسم کی کفایت شعاری اور ہر قسم کی فضول خرچی اور غیر اہم اخراجات سے مکمل اجتناب نہایت ہی اہم ہیں۔ کمیشن مافیا اور ٹھیکیداری نظام خزانے کو برباد کر رہا ہے۔ شدید مالی نظم و ضبط اور دیانت دارانہ نگرانی اور کنٹرول ضروری ہے۔
سرکاری، نیم سرکاری اور مسلح اداروں کی قوتوں کو بڑھانا اور قوم کو مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کروانا ناگزیر ہے۔ اس مقصد کے لیے محراب و منبر، میڈیا اور مارکیٹ کو واضح ترین ہدایات دی جائیں۔ اگلی حکومت جن کی بھی ہو، وہ کافی مشکل میں ہوں گے۔ اس لیے تمام سیاسی جماعتوں اور افراد کے لیے ابھی سے سوچنا چاہیے۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔