ہم میوزیم سے باہر نکلے، تو مختلف سکولوں کے بچوں نے ہمیں تحفے میں کارڈز دیے جن پر امن و محبت کے حوالہ سے نیک خواہشات درج تھیں۔ ان بچوں نے ہمارے ساتھ تصویریں بھی کھنچوائیں۔ ہم ہیروشیما امن پارک سے نکل رہے تھے، تو مجھے پارک کے ہر کونے میں اداسی محسوس ہوئی۔ کیوں کہ پارک والی جگہ 6 اگست 1945ء سے پہلے رہائشی اور کاروباری عمارتیں تھی اور یہاں سیکڑوں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوتی تھی، مگر اس دن یعنی 6 اگست کو تمام کے تمام لقمۂ اجل بن گئے۔ ہم نے پورا دن اس پارک اور میوزیم میں گزارا اور جب پارک سے باہر نکلے، تو تقریباً تین بجنے والے تھے۔ میں اور نینسی نے فیصلہ کیا کہ جزیرہ میاجیما کی سیر کی جائے۔ اس لیے ہم الیکٹرک ٹرام میں بیٹھ گئے اور سوئے میاجیما روانہ ہوئے۔
میاجیما کا جزیرہ جو پروشیائی نیلے سمندر کے کنارے واقع ہے، انتہائی پُرسکون اور پُرفضا مقام ہے، جہاں چودہ سو سال پرانی ’’ایتسو کو شیما‘‘ شرائن بھی ہے۔ اس شرائن کی خاص بات ’’سیٹو سمندر‘‘ کے اندرونِ ساحل پر قائم لکڑی سے بنا دروازہ ہے، جسے دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔
تاہم میاجیما جزیرے کی دوسری خاص بات یہاں کا گھنا جنگل اور اس میں رہائش پذیر ہرنوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ میاجیما جانے کے لیے فیری یا سمندری جہاز سے جانا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہم نے ٹکٹ خرید لیا، جہاز میں بیٹھ گئے اور تقریباً دس منٹ کے سفر کے بعد جزیرے پر اُترگئے۔جیسے ہی ہم نے جزیرے پر پہلا قدم رکھا، تو سب سے پہلے میاجیما کے خوبصورت بازار ہمارے سامنے تھا، جہاں کی لکڑی سے بنی عمارتیں سیاحوں کو اپنی طرف راغب کر رہی تھیں۔ ہم بازار میں آگے بڑھے، تو درجنوں ہرن دیکھے جو بازار میں انسانوں کے ساتھ ساتھ گھوم رہے تھے۔ ان میں سے چند ہرن درختوں کے سایہ اور فٹ پاتھ پر لیٹے ہوئے تھے۔ بعض سیاحوں کی طرف جا کر ان کو اپنے انداز سے ’’خوش آمدید‘‘ کہتے۔ اس طرح بازاروں میں بڑی تعداد میں ہرنوں کا گھومنا پھرنا میرے لیے باعثِ حیرانی تھا۔ ہرن جیسا نازک مزاج اور خوبصورت جانور تو ہمارے ملک میں انسانوں کے ڈر سے جنگلوں میں پناہ لیے پھرتا ہے۔ کیوں کہ ہم انہیں مارنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ دوسری طرف یہاں امن اور سکون کا یہ عالم ہے کہ یہ خوبصورت جانور انسانوں کے بیچ یوں رہ رہے ہیں، جیسا کہ وہ پرانے زمانے سے دوست چلے آ رہے ہوں۔ کہتے ہیں کہ ’’شینٹو ازم‘‘ میں ہرن کو مقدس جانور سمجھا جاتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ہرن، دیوتاؤں کے پیغامبر ہیں۔ میں نے دیکھا کہ کئی سیاح، ہرن کو کھانے کے لیے کچھ دیتے، تو جیسے جانور بڑے مہذب انداز سے جھک کر ان کا شکریہ ادا کرتے۔
میں اور نینسی نے ان ہرنوں کے ساتھ تصویریں بنائیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک ہرن میرے قریب آیا، مجھے اپنی زبان میں کچھ کہنے لگا اور ساتھ ہی میرا بوسہ لینے لگا، جس پر نینسی اور آس پاس کے لوگوں کی ہنسی چھوٹی۔ ہم نے ان خوبصورت جانوروں کی تصویریں بنائیں، پیار کیا اور آگے بڑھے۔ جب ہم ’’ایتسوکوشیما‘‘ شرائن کے قریب پہنچے، تو شام ڈھلنے کو تھی۔ اس شرائن کا گیٹ سمندر کے ساحل پر بنا ہے، جس تک پہنچنے کے لیے ساحل پر ہی جانا پڑتا ہے۔ شرائن کے گیٹ کے اردگرد سیکڑوں سیاح موجود تھے، جو تصویر یں بنا رہے تھے۔
نینسی نے مجھ سے کیمرہ لیا اور میری چند تصویریں بنانے لگیں، تو ساتھ ہی ایک جاپانی خاتون ہماری طرف آئیں اور کہا کہ چلو میں آپ دونوں کی تصویر بناتی ہوں، جس پر اس نے ہمارا کیمرہ لیا۔ نینسی میرے قریب آئی، میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور خاتون نے تصویر بنائی۔ مجھے نینسی کا اپنے کندھے پر اس طرح بے تکلفی سے ہاتھ رکھنا اور تصویر بنانا تھوڑا عجیب سا بھی لگا۔ کیوں کہ ابھی تک وہ انتہائی سنجیدہ خاتون لگ رہی تھی۔ اس نے جب میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، تو میرے سینے میں گدگدی سی ہونے لگی اور میں نے دل ہی دل میں چاہا کہ اس کا نرم ہاتھ اسی طرح میرے کندھے پر پڑا رہے، لیکن تصویر بنانے کے فوراً بعد نینسی نے اپنا نازک ہاتھ ہٹا دیا۔ اب سورج مکمل طور پر غروب ہوچکا تھا اور پُرسکون اندھیرا میاجیما کے جزیرے پر بال کھولنے کو بے تاب تھا۔ نینسی کے اس عمل نے پہلی دفعہ مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ کیوں کہ اب تک وہ محض میرے ساتھ ایک اچھے ساتھی کے طور پر گھوم پھر رہی تھی، مگر اب جیسے نینسی کے ساتھ ہر گزرتا لمحہ مجھے محسوس ہو رہا تھا۔ نینسی نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ پہاڑ کی طرف چلتے ہیں۔میں نے حامی بھری اور ہم دونوں پیدل چلے پڑے۔ ہم دونوں گھنے جنگل والی پہاڑی کی طرف روانہ ہوئے، تو تاریکی اور بھی گہری ہوچکی تھی جب کہ ہلکی ٹھنڈی ہوا نینسی کے بکھرے بالوں کو وقتاً فوقتاً بے ترتیبی سے اڑا رہی تھی۔ مجھے تھوڑی ٹھنڈ محسوس ہونے لگی۔ چلتے چلتے ہم میاجیماکے چھوٹے سے گاؤں پہنچے جو صاف ستھر ا مگر سنسان سا لگ رہا تھا۔ جاپان میں ویسے بھی خاموشی ہوتی ہے، مگر یہ جزیرہ نہایت پُرسکون اور خاموش تھا۔ یو ں لگ رہا تھا جیسے اس چھوٹی سی بستی میں رہائش پذیر جاپانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم ایک گلی پر پہاڑ کی طرف روانہ ہوئے، تو ارد گرد بندروں نے ہمیں تعجب سے دیکھا اور جب پہاڑ پر چڑھنے لگے، تو اس سنسان ماحول میں تاریکی اور خاموشی نے میرے اعصاب پر خوف سا طاری کر دیا۔ ہم آگے بڑھے، تو میں نے اپنے ہاتھ پر نینسی کے ہاتھ کا لمس محسوس کیا جس نے میرے اعصاب پر چھائے ہوئے خوف کو جذباتیت کے پردے میں غائب کردیا۔ غیر ارادی طورپر میرا ہاتھ نینسی کے ہاتھ سے مِلا اور یوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہم پہاڑ پر موجود ایک چھوٹی سے شینٹو شرائین پہنچے۔ یہاں درختوں کے جھنڈ میں عبادت کا کمرہ، بیٹھنے کے لیے ایک بنچ جس کے اوپر جستی چادر کی چھتر سی لگی ہوئی تھی۔ ایک طرف اوپر جانے اور دوسری طرف نیچے آنے کے لیے پتھروں کی سیڑھیاں بھی بنی ہوئی تھیں۔میں نے ارد گرد دیکھا، تو پیلے رنگ کے برقی قمقمے شرائن کی اطراف کو ہلکی روشنی فراہم کر رہے تھے۔ اندھیرا مزید گہرا ہو رہا تھا اور میاجیما کی اس چھوٹی پہاڑی پر گھنے درختوں کے بیچ ہم اکیلے کھڑے سینوں میں موجزن طوفان سے نبرد آزما تھے۔ میں نے نینسی کی طرف دیکھا، تو اس نے بھی میری طرف چہرہ موڑاجس کے گلابی گالوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نے مجھے بے اختیار اس کے قریب کیا۔ میاجیما کی پہاڑی پر ہلکی ٹھنڈی ہوا ہمارے جسموں کو چھوتی ہوئی عجیب سا سماں باندھ رہی تھی۔ درختوں میں موجود پرندوں کی چہچہاہٹ ہمارے کانوں میں گویا رس گھول رہی تھی۔ دو دلوں کی دھڑکنیں ایک ہوئیں اور ہم کہیں دور جاکر کھو گئے۔ پیچھے سے آتے ہوئے جوان جوڑے کے قہقہہ سے ہم یکدم ہوش میں آگئے اور وہ ہمارے قریب پہنچ کر خاموش ہوگئے۔ ہم نے مسکرا کر ان کو خوش آمدید کہا جس کا جواب انہوں نے بھی مسکرا کردیا اور آگے جاکر بنچ پر بیٹھ گئے۔ میں اور نینسی نے ایک دوسرے کو پیار بھری نظروں سے دیکھا، مسکرائے اور نیچے کی طرف روانہ ہوئے۔اندھیرا اب مکمل طورپر چھا گیا تھا۔ ہم پہاڑی سے اتر کرایک بار پھر میاجیما کے بازار میں پیدل جا رہے تھے۔ یہاں اِک آدھ ہوٹل اور ریسٹورنٹ کھلے نظر آئے جن میں سیاح خوش گپیوں میں مصروف کھانے کھا رہے تھے۔ نینسی کو تاریخ، ثقافت اور فنِ تعمیر سے دلچسپی تھی اور جہاں کہیں بھی وہ کوئی ایسی عمارت دیکھتی جس کی تعمیر قدیم ہوتی، تو وہ ضرور اس کے قریب جاتی اور اپنے تجسس کی پیاس بجھاتی۔ یو ں ہم کئی قدیم اور لکڑی کی عمارتوں کا قریب سے مشاہدہ کرتے آگے بڑھتے گئے اور آخرِکار فیری سٹاپ واپس پہنچ گئے، جہاں پہلے ہی سے ایک فیری روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ ہم فیری پر چڑھے اور تیسری منزل پر ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر میا جیما کی خوبصورتی، تاریخی و ثقافتی اہمیت اور سیاحت پر بحث کرنے لگے۔ نینسی نے کہا کہ میاجیما جزیرہ فطری حسن، سکون اور انسانی تخلیق کے خوبصورت امتزاج کا ایک نمونہ ہے۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا، تو یہ خوبصورت جزیرہ پُرسکون دکھائی دے رہا تھا۔ اچانک میری نظر پہاڑ کے درمیان درختوں کی جھرمٹ میں برقی قمقمے کے نیچے بینچ پر بیٹھے جوڑے پر پڑی جو ایک دوسرے کی محبت میں غرق، بانہوں میں بانہیں ڈالے دنیا و مافیہا سے بے خبر تھے۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے نینسی کو اس طرف متوجہ کیا، تو اس کا چہرہ ٹماٹر کی طرح لال ہوا اور وہ کھکھلا کر ہنس دیں۔ کچھ دیر بعد نینسی نے کہا کہ کیوں نہ کسی اچھی جگہ ڈنر کرلیں؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس لیے جیسے ہی ہم فیر ی سے نیچے اترے، تو وہاں موجود ایک روایاتی قسم کے ریسٹورنٹ گئے اور کھانے کا آرڈر دے دیا۔ (جاری ہے)
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔