عزم و ہمت کا پیکر منیبہ مزاری 3 مارچ 1987ء کو پیدا ہوئیں۔ اُن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
منیبہ مزاری کے مطابق انہیں بچپن سے آرٹسٹ بننے کا شوق تھا، لیکن ایک عورت ہونے کے ناتے وہ جلد ہی شادی کے بندھن میں باندھ دی گئی۔ ان کے بقول: ’’میں اپنی شادی سے کبھی خوش نہ تھی، مگر ہمارے معاشرے میں والدین کے آگے سرِ تسلم خم کرنا پڑتا ہے۔‘‘ بدقسمتی سے وہ بہت جلد ہی ایک حادثے کا شکار ہوئیں۔ ان کے شاہر نے گاڑی سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی جب کہ منیبہ مزاری کھائی میں گر گئیں۔ اس حادثے کے نتیجے میں وہ بری طرح زخمی ہو گئیں۔ اس کی بیشتر ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ اسی دوران میں وہ ’’سپائنل انجری‘‘ (ریڑھ کی ہڈی کا زخم) کا شکار بھی ہوئیں۔ جب انہیں گاڑی سے نکالا جا رہا تھا، تو زیادہ زور دینے کی وجہ سے ان کی ’’سپائنل انجری‘‘ میں مزید اضافہ ہوا، لیکن بیان کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب ہونے کے با وجود منیبہ مزاری کا حوصلہ بلند رہا۔ اس حادثے نے گویا اس کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ ہسپتال میں پورے دو مہینے وہ مایوسی کی انتہاؤں کو چھوتی رہی۔
ہسپتال میں گزرے ایام کو منیبہ مزاری کچھ یوں بیان کرتی ہیں: ’’ایک دن ڈاکٹر میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ایک آرٹسٹ بننا چاہتی تھیں، جب کہ اس کے برعکس مجبوریوں کے تحت آپ ایک ہاؤس وائف بننے پر اکتفا کیوں کر بیٹھیں؟ میں آپ کے لیے ایک بہت بری خبر لے کر آیا ہوں۔ اور وہ یہ کہ آپ کبھی پینٹ نہیں کر پائیں گی۔‘‘ دوسرے دن ڈاکٹر نے دوبارہ آکر کہا: ’’آپ کی سپائنل انجری بہت گہری ہے۔ نتیجتاً آپ کبھی چل بھی نہیں پائیں گی۔‘‘ تیسرے دن ڈاکٹر نے آکر ایک اور بُری خبر دی: ’’مجھے افسوس ہے کہ ان گہرے زخموں کی وجہ سے آپ ماں بھی نہیں بن پائیں گی۔‘‘
منیبہ مزاری کہتی ہیں کہ اُس دن میں تباہ ہو کر رِہ گئی اور اپنے زندہ رہنے پر سوال کیا کہ آخر پروردگار مجھے زندہ کیوں رکھنا چاہتا ہے؟ منیبہ مزاری کہتی ہیں کہ ایک دن ہسپتال میں، مَیں نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ میں معذور ہوں، ان سفید دیواروں نے مجھے تنگ کر کے رکھ دیا ہے۔ میرے لیے کچھ پینٹس لے کر آئیں، میں کچھ کھینچنا چاہتی ہوں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہسپتال میں جب لوگ میری پینٹنگز کو دیکھتے تو کہتے:’’واہ کیا آرٹ ہے!‘‘ لیکن وہ لوگ ان پینٹنگز میں چھپے درد کو محسوس نہیں کر پاتے تھے۔ بس میں ہی اپنے درد کو محسوس کر رہی تھی۔ میں نے اس وقت سے عزم کر لیا تھا کہ میں جیوں گی ضرور، مگر اپنے لیے نہ کہ دنیا کے لیے، خود اپنی زندگی جیوں گی، اپنی مرضی کی زندگی جیوں گی۔ اس کے لیے میں نے سب سے پہلے اپنے شوہر کو طلاق دے کر اسے آزاد کیا۔ دوسری جو بات مجھے اپنی منزل پانے سے روک رہی تھی، وہ یہ تھی کہ میں کبھی ماں نہیں بن پاؤں گی۔ یہ کمی دور کرنے کے لیے میں نے ایک یتیم خانے سے بچے کو گود لیا۔ یوں میں نے یہ خلا بھی پُر کیا۔
اپنی بیشتر کمیاں پوری کرنے کے بعد منیبہ مزاری نے ’’پینٹنگ‘‘ کو ہی اپنی زندگی بنا لیا۔ اپنی بے پناہ ہمت کی بدولت وہ پاکستان کے ایک قومی ٹی وی میں اینکر بنی۔ مختلف شوز میں حصہ لیا اور آج وہ ’’یو این او‘‘ (یونائیٹڈ نیشنز آرگنائزیشن) میں ’’نیشنل ویمن ایمبیسڈر ہیں۔
منیبہ مزاری کہتی ہیں: ’’جب آپ تسلیم کر لیتے ہیں خود کو، چاہے آپ جس طرح بھی ہوں، تو دنیا آپ کو جان لیتی ہے اور آپ کو تسلیم کر لیتی ہے۔‘‘ اس لیے قارئین، میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ہمیں سب سے پہلے خود کو تسلیم کرنا چاہیے۔ چاہے ہم کچھ بھی ہوں، ہمم ایک معمولی ٹیلر ہوں، ایک استاد ہوں، ایک سپورٹس مین ہوں، بس ہم نے سب سے پہلے خود کو تسلیم کرنا ہے، اس کے بعد دنیا ہمیں خود بخود تسلیم کرلے گی۔
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔