جہان زیب کالج میں ہمارے طالب علمی کے دوران میں ہاکی ٹیم میں ہمارے ساتھ مینگورہ کے چند مشہور گھرانوں کے لڑکے کھیلتے تھے۔ ان میں ایک تو نادر خان تھے، جو اغلباً شیر بہادر خان مشیرِ ریاستِ سوات اور صفیار خان صوبیدار میجر کے بھائی تھے۔ ایک حاجی شیرین کے بیٹے احسان اللہ تھے۔ ان کے علاوہ مفتاح اللہ تھے جو کسی بڑے سیٹھ کے فرزند تھے اور ایک تھے ممتاز جو حاجی عبدالمالک کے بیٹے تھے۔ وہ بہت دُبلے پتلے تھے اور جب ہم شام کو گراسی گراؤنڈ میں قمیص اُتار کر کھیلتے تھے، تو اُن کی پسلیاں گنی جاسکتی تھیں۔ میں ازراہِ مذاق اُن کو ’’ایک رے‘‘ کہتا تھا۔ یہ اُن چند لڑکوں میں سے تھے جو میری کسی بات پر ناراض نہیں ہوتے تھے۔ کئی سال بعد میں نے اُن کے بڑے بھائی محمد نظیر مرحوم سے اُن کے بارے میں پوچھا کہ آیا وہ زندہ ہیں یا…… وہ ہنس کر کہنے لگے کہ اُن کی تو تین بیویاں ہیں اور بینک اسکوئیر میں اُن کا ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور ہے۔ میں اُن سے ملنے شام کو چلا گیا۔ زمانے نے ہم دونوں کے چہرے بدل ڈالے تھے۔ اُن کی لمبی سی داڑھی تھی مگر اُن کی خوب صورت بھوری آنکھوں میں اب تک وہی چمک تھی۔ بڑی گرم جوشی سے ملے اور ہم دیر تک ماضی کے دھندلکوں میں جھانکتے رہے۔
ریاست کے وجود پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ جو بزرگ تھے، وہ بہت سنجیدہ اور دھیمے لہجے میں باتیں کرنے لگے تھے اور جو جوان تھے، وہ بے یقینی کی صورتحال سے دوچار تھے۔ مسجد افسر آباد میں اکثر بڑے بوڑھے سرگوشیوں میں باتیں کرتے تھے۔ ایک آدھ اُداس لہجے میں کہتا: ’’خدا رحم کرے!‘‘ اس سلطنت اور اس کی پُرامن رعایا پر برے دن آنے والے ہیں۔ بعض کہتے تھے کہ مینگورہ میں شراب نوشی بڑھ گئی ہے اور اب تو کھلے عام فروخت ہو رہی ہے۔ ان ایام میں ہمارے کالج کی ہاکی ٹیم کے ایک سینئر کھلاڑی جو اَب کاروبار کرنے لگے تھے، کو شراب کی دُکان کھولنے کا لائسنس ملا۔ مکان باغ چوک سے ذرا آگے اُن کی دوکان تھی۔ ہم کبھی کبھی شام کو کسی خوش گوار موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے پیدل نکلتے، تو چلتے چلتے اُن کے ہاں بھی چند لمحے گزارنے کے لیے ٹھہر جاتے۔ میں اُن سے مذاق میں اکثر کہتا کہ کیا تم پارسی ہوگئے ہو؟ کیوں کہ ہم نے پاکستان میں اکثر دوکانیں پارسیوں کی ہی دیکھی ہیں۔ ریاست میں کوئی پارسی نہیں، تو تمھیں لائسنس کیسے مل گیا؟ کہتے تھے یہ آفندی تو کئی سال سے یہ کاروبار ریاست کی اجازت سے کر رہا ہے، وہ بھی مسجد کے پڑوس میں وہ پارسی تو نہیں ہیں۔ ’’آفندی‘‘ سے بھی ایک بار ملنا ہوا، ویسے اُس کے بارے میں کئی باتیں مشہور تھیں لیکن اُن کی زیرِ زمین سرگرمیوں کا پتا ہمیں کئی سال بعد ڈاکٹر سلطان روم صاحب کی مشہور کتاب ’’ریاست سوات‘‘ پڑھ کر ہی لگ گیا۔ اسی کتاب سے مجھے آفندی اور ہمارے ایک کولیگ عبدالمنان مرحوم آف اخوند کلے کے باہمی روابط کا حال معلوم ہوا کہ یہ دونوں ایک ریاست مخالف تنظیم کے ارکان تھے۔ حالاں کہ ادغام سے پہلے مجھے معلوم ہونا چاہیے تھا کہ عبدالمنان مرحوم اور آفندی کے درمیان دوستی کس چیز پر استوار ہے؟ کیوں کہ وہ شراب سے شدید نفرت کرتے تھے اور آفندی اس مردود شے کے کاروباری تھے۔ جب آفندی لنڈیکس میں اپنے بنگلے کی تعمیر کا آغاز کرنے والے تھے، تو عبدالمنان مرحوم گراؤنڈ ’’لے آؤٹ‘‘ کے لیے مجھے ساتھ لے گئے تھے اور مجھ سے آفندی کا تعارف یوں کیا تھا کہ ’’یہ آفندی صاحب ہیں اور میرے دوست ہیں۔‘‘ میں آفندی کو کئی سال سے دیکھتا چلا آیا تھا۔ وہ میرے لیے اجنبی نہیں تھا، مگر میں اُن کے لیے بالکل اجنبی تھا۔ ہماری جس ہاکی کے ساتھی کو لائسنس ملا تھا، وہ بہت کھلے دل کا مالک تھا۔ شراب کے رسیا لوگ بہت سخی ہوتے ہیں۔ آپ کسی سے نسوار کی ایک چٹکی مانگیں، تو وہ ناراض ہوجائے گا لیکن شرابی پوری بوتل آپ کے سامنے رکھے گا جس کی قیمت سیکڑوں اور آج کل ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔ نہ جانے آج کل میرے وہ تمام ساتھی کہاں ہوں گے؟ میں مینگورہ جانے سے بھی عاجز ہوکر رہ گیا ہوں۔ مجھے سب ساتھی یاد آتے ہیں اور ان کے لیے میری روح اُداس اور دل دعاگو ہے۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔