حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ اگر علیؓ نہ ہوتے، تو عمرؓ ہلاک ہوجاتا۔
کیوں؟
کیوں کہ بسا اوقات ایسے مقدمات اور پیچیدہ مسائل سامنے آتھے تھے جنہیں سن کر دماغ ماؤف ہوجاتا اور جن کو حل کرنا تقریباً ناممکن لگتا۔ ظاہر ہے اس قسم کی صورتحال میں پھر انصاف کی فراہمی بھی مشکل ہوجاتی، مگر حضرت علیؓ اپنی نکتہ رس نگاہ سے ان مقدمات کے ایسے فیصلے کرتے اور ان مسائل کو ایسے حل کرتے کہ عقل دنگ رہ جاتی اور لوگوں کو بلاتعطل اور مکمل انصاف بھی مل جاتا تھا۔
مثلاً ایک دفعہ ایک بچے نے حضرت عمرؓ سے اپنے باپ کے مال کا مطالبہ کیا۔ اس نے بتایا کہ میں مدینہ میں ہوں اور میرا باپ کوفہ میں فوت ہوا ہے۔ حضرت عمرؓ نے بچے کو جھڑکا اور کہا، تیرا دماغ خراب ہے۔ کوفہ میں مرنے والا تیرا باپ کیسے ہوسکتا ہے، جبکہ وہ اتنا بوڑھا تھا کہ قابل اولاد بھی نہ تھا۔
بچہ روتا ہوا مسجد سے باہر آ رہا تھا کہ راستہ میں حضرت علیؓ ابن طالب مل گے ۔ آپؓ نے فرمایا اسے مسجد میں لاؤ، آج میں اس کا وہ فیصلہ کردوں گا، جو خداوندعالم نے ساتویں آسمان پر کیا ہوگا اور یہ فیصلہ وہی کرے گا جس کو خدا نے برگزیدہ بنایا ہوگا۔
آپؓ نے پوچھا کہ بچے کے والد کی قبر کہاں ہے؟ بتایا گیا کہ وہ کوفہ میں تھا، لیکن اس کی لاش کو وہاں سے لاکر مدینہ میں دفن کیا گیا تھا۔ آپؓنے فرمایا کہ چلو، بچے کے باپ کی قبر پر چلتے ہیں ۔
جب قبر پر آئے تو آپؓ نے فرمایا، اس قبر کو کھولو اور اس کی پسلی کی ایک ہڈی نکا ل کر مجھے دو۔
قبر کو کھول کر پسلی کی ہڈی لائی گئی۔ حضرت علیؓ نے ہڈی بچے کو سونگھنے کیلے دی۔ بچے نے جوں ہی ہڈی کو سونگھا اس کی ناک سے خون کا فوارا جاری ہوا ۔
آپؓ نے فرمایا: ’’یہ میت اس کا واقعی باپ ہے، اس کا مال اسے دے دو ۔‘‘
حضرت عمر ؓ نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہڈی سونگھنے سے خون آجائے اور ہم مال اس کے حوالے کردیں ؟
آپؓنے جواباً فرمایا، اچھا اب یہی ہڈی دوسروں کو سونگھاؤ۔ جب وہ ہڈی دوسروں کو سونگھائی گئی، تو کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ آپؓ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ پھر بچے کو سونگھاؤ۔
جوں ہی بچے نے ناک رکھی، تو فوراً خون کا فوارا جاری ہوا۔ آپؓ نے فرمایا کہ اگر مرنے والا اس بچے کا باپ نہ ہوتا، تو اس کی ناک سے خون جاری نہ ہوتا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس میت کا تمام ترکہ اس بچے کے حوالے کردیا۔
اسلامی لشکر کے ایک سپاہی ہیشم سے روایت ہے کہ جب وہ سفر سے واپس آیا، تو اس کی بیوی کے ہاں چھ ماہ کی مدت میں بچے کی پیدائش ہوگئیٔ تھی۔ ہیشم نے اس بچے کو اپنا بیٹا ماننے سے انکار کردیا۔ آخرِکار دونوں میاں بیوی حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا ماجرا ان کو بتایا۔ ہیشم نے کہا کہ چھے ماہ سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ میں سفر سے واپس لوٹا ہوں اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔ یہ میرے نطفے سے نہیں ہوسکتا ۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ عورت کو سنگسار کیا جائے۔ حضرت علیؓ نے سنگسار کرنے سے پہلے حضرت عمرؓسے فرمایا کہ یہ عورت اپنے شوہر سے حاملہ ہوئی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایاہے:(ترجمہ) ’’ اس کی مدت حمل اور مدت رضاعت تیس ماہ ہے۔‘‘
پھر فرمایا ہے (ترجمہ) ’’ مائیں اپنی اولاد کو دو سال تک دودھ پلائیں ۔ ‘‘
لہٰذا اگر تیس سے چوبیس کو نفی کردیا جائے، تو مدت حمل چھ ماہ بنتی ہے اور شش ماہ میں بچہ پیدا ہوکر زندہ رہ سکتا ہے۔ لہٰذا یہ لڑکا اسی شوہر کا ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے عورت کو رہا کردیا اور بچے کو باپ کے ساتھ ملادیا اور اس فیصلے کی بھرپور تحسین فرمائی۔
ایک دن حضرت علیؓ مدینہ کی گلیوں میں چلے جا رہے تھے کہ آپؓ نے دیکھا کہ کچھ لوگ غیض و غضب کی حالت میں ایک عورت کو گھسیٹے لئے جا رہے ہیں۔ وہ عورت خوف کے مارے کانپ رہی ہے۔ حضرت علیؓ نے پکار کر کہا کہ تم اس عورت کو کیوں گھسیٹ رہے ہو؟ لوگوں نے بتایا کہ اس عورت نے بدکاری کی ہے اسی لئے امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے اس عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت علیؓ نے اس عورت کو ان کے ہاتھوں سے چھینا اور ان لوگوں کی خوب سرزنش فرمائی۔ چنانچہ وہ لوگ حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شکایت کی۔ ان کی بات سن کر حضرت عمرؓ فرماے لگے کہ حضرت علیؓ نے ضرور کسی بات کے معلوم ہونے پر ایسا کیا ہوگا۔ جاؤ ،ان کو میرے پاس بھیجو۔
حضرت علیؓ حاضر ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے آپؓ سے پوچھا: ’’آپ نے ان لوگوں کو کیوں واپس کردیا اور ان کو اس بدکار عورت پر حد قائم کرنے سے کیوں منع کیا ؟ ‘‘
حضرت علیؓ نے کہا کہ اے امیرالمومنین! کیا آپ نے رسول کریمؐ کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ آپؐ نے فرمایا: ’’ تین طرح کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ( یعنی وہ بے قصور ہیں) ایک سونے والا آدمی یہاں تک کے وہ بیدار ہوجائے، دوسرا نابالغ جب تک کے وہ بالغ نہ ہوجائے اور تیسرا گناہ میں مبتلا آدمی جب تک باہوش نہ ہو۔‘‘
حضرت عمرؓ نے تبسم فرمایا اور حضرت علیؓ نے کہا کہ اے امیرالمومنین! اس عورت کو کبھی دیوانہ پن کا دورہ پڑتا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ آدمی اس کے پاس اس حالت میں آیا ہو کہ اسے دیوانہ پن کا دورہ پڑا ہو۔ (یہ سن کر) حضرت عمرؓ نے اس عورت کو رہا کردیا ۔
ایک بار دو کنیزیں ایک لڑکا اور لڑکی میں جھگڑا کرتی ہوئی حضرت عمرؓ کے پاس آئیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ حضرت علیؓ کو بلاؤ۔ اس میں وہ فیصلہ کریں گے۔ جب حضرت علیؓ آئے تو تمام قصہ بیان کیا گیا۔
فرمایا دو شیشیاں منگاؤ اور ان کو وزن کرکے ان کنیزوں کو دو کہ اپنا اپنا دودھ اس میں بھریں، جب وہ شیشیاں دودھ سے بھری ہوئی آئیں۔
فرمایا اب پھر وزن کرو، جس کی شیشی بھاری ہو، اسی کا لڑکا ہے اور جس کی شیشی ہلکی ہو اس کی لڑکی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا یہ کیسے فرمایا؟ حضرت علیؓ نے فرمایا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(ترجمہ) ’’ مرد کیلے عورت سے دوگنا حصہ ہے۔ ‘‘
قارئین، اس آرٹیکل کیلے مواد محمد عبداللہ مدنی کی کتاب ’’ حضرت علیؓ کے فیصلے‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اس کو شائع کرنے کا مقصد تصویر کا دوسرا رخ دکھانا ہے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں تقریباً تمام لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ جناب حضرت علیؓ ایک بہت بڑے جنگجو تھے، جنھوں نے بڑے بڑے سورماؤں کو میدانِ جنگ میں زیر کیا تھا، لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ آپؓ ایک بہت بڑے پائے کے عالم اور دانشور بھی تھے۔
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔