وطنِ عزیز میں جنسی زیادتی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سال 2017ء کے پہلے چھے ماہ کے دوران میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 768 واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے 68 ضلع قصور سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ وفاق اور صوبائی سطح پر اس قسم کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں جس میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مستند معلومات اور اعداد و شمار اکھٹے کیے جائیں۔
گذشتہ ایک سال کے دوران میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 768 واقعات کے بارے میں کسی صوبائی اور وفاقی ادارے کے پاس ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے کیسوں میں ملزمان گرفتار ہوئے یا انھیں سزائیں سنائی جا چکی ہیں؟ صوبائی اور وفاقی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بچوں کے تحفظ میں اقدامات اور قوانین پر عملدرآمد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ضلع قصور جو سنہ 2015ء میں ویڈیو سکینڈل کی وجہ سے خبروں میں رہا، وہاں 2016ء میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے کل 141 کیسوں میں سے 99 جنسی تشدد اور ریپ اور پھر قتل کیے جانے کے تھے۔
ضلع قصور میں پولیس حکام کے مطابق اغوا کے بعد ریپ اور قتل کے 12 مقدمات درج ہیں۔ ان واقعات میں سے پہلا واقعہ ٹھیک ایک سال قبل چار دسمبر 2016ء کو پیش آیا جب کہ زینب کی گمشدگی سے ایک ماہ پہلے ہی کائنات بھی لاپتا ہوئی تھی جو اس وقت صدمے کی حالت میں قصور کے ہی ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ اگر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے علاوہ ان پر تشدد اور کم عمری کی شادی اور دیگر مسائل کو بھی شامل کیا جائے، تو بچوں کے خلاف جرائم کی کل تعداد 1764 بن جاتی ہے۔ بچوں کے خلاف جرائم کے لحاظ سے ملک کا دارالحکومت اسلام آباد سنہ 2016ء میں پاکپتن کے 169 واقعات کے بعد 156 کیسوں کے ساتھ سرفہرست رہا۔ ان اعداد و شمار سے یہ پتا چلا کہ گذشتہ سال کے پہلے چھے ماہ میں کل 1764 کیسوں میں سے پنجاب میں 62 فیصد، سندھ میں 28 فیصد، بلوچستان میں 58، کے پی میں 42 فیصد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نو فیصد رجسٹرڈ ہوئے۔ گذشتہ دو برسوں میں اسلام آباد، قصور، لاہور، راولپنڈی، شیخوپورہ، مظفرگڑھ، پاکپتن، فیصل آباد، ویہاڑی، خیرپور، کوئٹہ، اوکاڑہ اور سیالکوٹ ایسے اضلاع کے طور پر سامنے آئے ہیں، جہاں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے صورت حال تشویش ناک ہے۔
پاکستان میں بچوں کی اندرون ملک سمگلنگ یا انٹرنل ٹریفکنگ کو روکنے کے لیے کسی قسم کا قانون موجود نہیں ہے۔ قصور واقعہ پر بہت سے لوگوں نے سیاست چمکائی لیکن کسی نے بھی مردان کی اسما پر دکھ کا اظہار تک نہیں کیا۔
اگر دیکھا جائے، تو ایسے واقعات کے رونما ہونے میں بنیادی کردار میڈیا کا ہے۔ ہمارا میڈیا ایسے ڈرامے اور پروگرام نشر کرتا ہے، جو ناظرین کو جنسی عمل کی طرف اشتعال دلاتا ہے۔ ایسے ناچ گانے اور مجرے پیش کیے جاتے ہیں جن سے مغربی معاشرہ بھی شرما جائے گا۔ مارننگ شوز کے نام پر ایسے مناظر دکھایا جاتے ہیں جو بے حیائی کی حدود کراس کر جاتے ہیں۔ ریٹنگ کے چکر میں بعض رپورٹوں کو ایسا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جس سے معاشرہ مزید بے راہ روی کی طرف چلا جاتا ہے۔ پردے کا تو گویا تصور ہی ہمارے معاشرے میں نہیں رہا۔ پیمرا نے کبھی بھی اس سلسلے میں ذمہ داری کا احساس نہیں کیا۔ عدلیہ، پیمرا، وزیرِ اطلاعات، وزیر اعظم، ایم این ایز، ایم پی ایز، منتخب نمائندے، بیوکروکریسی سمیت ہم سب ان واقعات کے ذمہ دار ہیں۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔