آج کل پشاور میں میٹرو بس سروس کے ایک مہنگے منصوبے پر کام جاری ہے، لاگت ستاون ارب کے قرضے سے پوری ہوگی۔ بڑی اچھی بات ہے پشاور کے باسیوں کو ’’سہولیات‘‘ مل جائیں گی، لیکن یہاں بھی نقل والا معاملہ ہے۔ بیرونِ ممالک میں اس قسم کی سہولیات موجود ہیں لیکن کئی باتیں ایسی ہیں جو ہمارے یہاں نہیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہاں قرضوں پر انحصار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ پھر وہاں کے عوام خدمات کے لیے ادائیگیاں بھی کرتے ہیں اور ٹیکس بھی دیتے ہیں اور قومی املاک کی چوریاں اس وسیع پیمانے پر نہ کرتے ہوں گے جتنا کہ سدا غلام رہنے والے ہمارے خطے میں ہوتی ہیں۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک کی نقالی ہمارے لیے درست نہیں۔ چوں کہ ہمارے قصبے اور شہر بغیر عمدہ منصوبہ بندی کے بنتے ہیں، اس لیے یہاں ٹریفک کے مسائل بہت گھمبیر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نجی ملکیتوں کے لیے ہمارے یہاں کوئی عادلانہ نظام نہیں۔ اس لیے مفادِ عامہ کے کاموں میں حد سے زیادہ اخراجات اور بے شمار مشکلات ہوتی ہیں۔ پھر عوام کی تربیت کی طرف ہمارے یہاں کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس لیے ہمارے عوام بہت خود سر اور بے لگام ہوگئے ہیں۔ بہترین سے بہترین سہولیات چند ہفتوں ہی میں پہلے ناکارا اور پھر منظر سے غائب کر دی جاتی ہیں۔ ان سب پر مستزاد الراشی والمرتشی ماحول ہمارے یہاں ہر لمحے کام کو بگاڑ دیتا ہے۔ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس) پورے ملک میں سفری سہولیات فراہم کرنے کی عمدہ اور سستی سہولت تھی۔ اُس کا کیا بنا؟ بڑے پیمانے پر ریلوے اور پی آئی اے کا انجام دیکھیے۔ اس لیے میٹرو، اورنج اور گرین بسوں جیسے منصوبے بنانے سے قبل عوام کی تربیت اور تطہیر پر توجہ دینا زیادہ اہم ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہر شعبہ پر مارکیٹ کے مفادات کا قبضہ ہوچکا ہے، اس لیے متعلقہ شعبۂ تجارت کو غیر معمولی فوائد پہنچانے کے لیے منصوبے ڈیزائن کئے جاتے ہیں۔ حکومت کی اعلیٰ چوکیوں پر بڑے بڑے تاجر بیٹھے ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی اُن کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لیے قدرتی طور پر اُن کا زیادہ دھیان تجارت کی ترقی پر ہوگا۔ خواہ اُس کے منفی اثرات کیسے بھی ہوں۔

منصوبے کی لاگت ستاون ارب کے قرضے سے پوری ہوگی۔ (Photo: RS-Tech)

متعلقہ تاجروں کا فائدہ اس میں تھا کہ سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا جائے، تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اُن کو سمگلنگ میں زیادہ فائدہ نظر آیا، تو سمگلنگ کو وطن عزیز میں اتنا بڑھایا کہ اس کے ذریعے ملک کے کونے کونے میں اسلحہ و گولہ بارود بھی پہنچایا گیا۔ سرکاری زمینوں پر قبضے ہوں یا ٹھیکیداری نظام کے ذریعے ملک کے وسائل کی لوٹ مار، یہ سب ہم مسلمانوں کے یہاں جائز سمجھا جاتا ہے۔
وسائل کے لحاظ سے صوبہ کے پی ایک غریب صوبہ ہے۔ اس کے زرخیز علاقے کم ہیں۔ صنعتوں کے لحاظ سے یہ پسماندہ ہے۔ جنگلات اور معدنی پیداوار اس کی غائب ہوگئی ہے۔ اس لیے یہاں غربت کی شرح زیادہ ہے اور عوام بے شمار مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں صوبے میں عام لوگوں کے فوائد کی جگہ صرف ایک شہر میں اتنی بڑی سرمیہ کاری حکومت کی کوتاہ نظری کا ثبوت ہے۔
پاکستان بھر میں روڈ ٹرانسپورٹ کا شعبہ تقریباً سارے کا سارا نجی شعبے کے نچلے درمیانے طبقے کے پاس ہے۔ اس شعبے سے وابستہ افراد حکومتی اداروں کی نااہلی سے نالاں ہے۔ مثلاً حکومتی اہلکاروں پر ٹرانسپورٹروں سے بھتا خوری کا الزام عام ہے۔ سڑکوں اور راستوں کی خراب اور کمزور معیار، پیٹرول وغیرہ میں ملاوٹوں کی شکایت سپیئر پارٹس کے ناقص معیار کے بارے میں کافی سنا جاتا ہے۔ دوسری طرف نجی شعبے میں اس بڑے کاروبار کی طرف حکومت کے اعلیٰ اداروں اور اعلیٰ افسران کی مسلسل توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ خاص کر اس شعبے کو سہولیات اور فلاح کے حوالے سے۔ میں کسی ایسے ذریعے کو تلاش نہ کرسکا ہوں جس سے پاکستان کے اندر کمرشل ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں، مستریوں اور مزدوروں کی تعداد معلوم ہوسکے۔ ہمارے یہاں ان کے لیے انشورنس، تربیت اور اوقاتِ کار کا کوئی انتظام کم ازکم مجھے نظر نہیں آتا۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود نجی شعبہ میں ٹرانسپورٹرز معاشرے میں ایک مؤثر اور انتھک کردار ادا کررہے ہیں۔ چوں کہ ان کو حکومت کی طرف سے نگرانی اور راہنمائی دستیاب نہیں، اس لیے یہیں مشکلات کافی زیادہ ہیں۔ ان کا تدارک ضروری ہے۔

ہماری اپنی انڈسٹری موٹر گاڑیاں نہیں بناتی، اس لیے گرین، اورنج، میٹرو قسم کی گاڑیاں اور ان کے پرزے روز مہنگے ہوتے جائیں گے۔ پھر یار لوگ کمیشنوں اور ٹینڈروں کے ذریعے مال بنانا چاہتے ہوں گے۔ اس طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی کے بعد کی حکومت اس منصوبے کو بھی پسند کرے یا حالات اس کے موافق نہ ہوں۔ اس لیے موجودہ حکومت کو یہ منصوبہ ترک کرنا چاہئے۔ اب تک جو اخراجات ہوئے ہیں، اُن کو رائٹ آف کرنا چاہئے۔ (Photo: Current Affairs of Pakistan)

پشاور سمیت پورے صوبے بلکہ پورے ملک میں نجی شعبے میں ٹرانسپورٹ کافی فعال ہے۔ حکومتوں میں موجود اعلیٰ دماغ اگر اس سے فائدہ اٹھائے، تو زیادہ سود مند کام ہوگا۔ پشاور میں اتنے مہنگے اور محدود خدمات والے منصوبے کی جگہ اگر نجی ٹرانسپورٹروں کی اعانت اور اچھی رہنمائی کی جائے، تو زیادہ اچھا ہوگا۔ زیرِ عمل منصوبے میں بہت بڑے پیمانے پر نجی اور قومی املاک بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ اس لیے اس منصوبے کے منفی نتائج زیادہ ہیں۔ چوں کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی ہم لوگ دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔ ہماری اپنی انڈسٹری موٹر گاڑیاں نہیں بناتی، اس لیے گرین، اورنج، میٹرو قسم کی گاڑیاں اور ان کے پرزے روز مہنگے ہوتے جائیں گے۔ پھر یار لوگ کمیشنوں اور ٹینڈروں کے ذریعے مال بنانا چاہتے ہوں گے۔ اس طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی کے بعد کی حکومت اس منصوبے کو بھی پسند کرے یا حالات اس کے موافق نہ ہوں۔ اس لیے موجودہ حکومت کو یہ منصوبہ ترک کرنا چاہئے۔ اب تک جو اخراجات ہوئے ہیں، اُن کو رائٹ آف کرنا چاہئے۔ اس منصوبے کی جگہ پورے صوبے کے لیے اعلیٰ سطح کی اتھارٹی بنانی چاہئے، تاکہ وہ پورے صوبے میں انسانی سواریوں والی اور مال بردار گاڑیوں کے لیے عمدہ اور محفوظ نظام وضع کروائے۔ عوام تو ویسے بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اُن کی مشکلات دور کرنے اور اُن کی مدد و رہنمائی کی جائے۔ ٹرانسپورٹ کو ڈسپلن میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس طرح اس کی پیداواری قوت بھی بڑھ جائے گی۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔