عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ہر سال 18 لاکھ لڑکیاں اور 12 لاکھ لڑکے جن کی عمریں 18 سال سے کم ہوتی ہیں، کسی نہ کسی طرح جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ انسانوں کی شکل میں چلتے پھرتے درندے کبھی بھی کسی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایسے درندے کبھی گاؤں کا وڈیرے، کبھی استاد کی شکل میں چھپے ہوے بھیڑیے، کبھی کسی منحوس سرکاری آفیسر، کبھی مقلوب کے روپ میں جبکہ کبھی یہ کسی چرچ کے پادری کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ہر بار ایسے واقعات کے بعد انسانیت لرز سی جاتی ہے۔ صرف اقوام متحدہ کے ساتھ سالانہ بیس ہزار کیسز رجسٹر ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو اس گھناؤنے جرم سے بریت کا دعویٰ کرے۔ ڈبلیو ایچ اُو کے مطابق 53000 بچے ایسے کیسز میں مارے جاتے ہیں۔ 10 لاکھ کے قریب بچوں کو Prostitution اور Pornography کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ 12 لاکھ کے قریب بچے ہر سال اسمگل کئے جاتے ہیں۔
بدھ کے روز قصور میں پیش آنے والے 7 سالہ زینب کے اندوہناک واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس درندے نے جس بے رحمی سے اس ننھی پری اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر بعد میں اسے کچرے کے ڈھیر پر پھینکا ہے، تو ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ کیا ہماری بیٹیاں صرف اس لئے رہ گئی ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی کرکے انہیں کچرے کے ڈھیر پر پھینکا جائے؟ ہمیں اس بار یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ زینب کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے، وگرنہ ہمارے ملک کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کس طرح مختارا مائی، ڈاکٹر شازیہ خالد اور کائنات سومرو کیسز کے مجرمان کھلے عام پھر رہے ہیں۔ مختارا مائی کیس کے شریک مجرمان کو جب نچلی کورٹس نے سزائے موت دے دی، تو ہائیکورٹ نے ان کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی جبکہ سپریم کورٹ نے 6 میں سے 5 مجرمان کو بری کردیا۔ اسی طرح شازیہ خالد کا مجرم بھی کھلے عام پھر رہا ہے بلکہ سرکاری ملازمت بھی کر رہا ہے۔ بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ مشرف حکومت نے شازیہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں پر کبھی کوئی غریب اپنے خاوند کی ضمانت کیلئے کسی درندے ایس ایچ اُو کے ہتھے چڑھتا ہے، تو کبھی فیصل آباد کا ایم این اے میاں فاروق یا قصور کا ایم پی اے ملک احمد سعید ایسے گھناؤنے جرائم کی سرپرستی کرتے ہوئے پایا جاتا ہے۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب دسمبر 2017ء میں ملتان کی ایک پنچایت نے مرضی کی شادی پر لڑکی کی اجتماعی زیادتی کا حکم دیا تھا۔ ڈی آئی خان کی شریفاں بی بی کو کون بھولا ہے! جبکہ میں تو اپنے ملازم مومن کی گونگی بہری بیٹی شازمہ کو نہیں بھولا کہ کس طرح اس کی لاش کئی دن بعد ملی تھی۔ اس کی والدہ کی آہ و بکا ابھی تک میرے دل پر نقش ہے۔ کیوں کہ شازمہ کے مجرمان ابھی تک نہیں پکڑے گئے ہیں۔ جلتی پر تیل کا کام معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کا یہ بیان دیتا ہے کہ ’’72 فیصد کے قریب خواتین کو دورانِ حراست جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘‘
ان واقعات سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، لیکن آئے روز ایسے واقعات میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اگر اس ملک میں اندھیر نگری چوپٹ راج نہ ہوتا، تو کبھی بھی زینب جیسی گڑیا وحشی درندوں کا شکار نہ ہوتی۔ اس سے پہلے اسی ضلع قصور میں 280 بچوں والا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ 11 بچیاں صرف اس سال زیادتی کا نشانہ بن چکی ہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب تک یہاں پر لاشوں کے ڈھیر یا ڈھیر پر لاشیں نہیں ملتیں، تب تک ہم سوئے رہتے ہیں۔ ڈی پی او قصور کے مطابق اس سال 5 ہزار لوگوں سے تفتیش کی جاچکی ہے جبکہ 67 لوگوں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرایا جا چکا ہے۔ پوری ریاستی مشینری پچھلے چار، پانچ دن سے پاگلوں کی طرح زینب کے قاتلوں کو ڈھوند رہی ہے لیکن بے سود۔
ان واقعات میں بحیثیت قوم ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے کبھی اپنے بچوں کو اس طرح کے خطرات سے نمٹنے کی تعلیم نہیں دی ہے۔ اگر زینب کو اس چیز کا علم ہوتا کہ اپنا دفاع کس طرح کرنا ہے، تو وہ کم از کم آرام سے تو قاتل کے ساتھ نہ جاتی، جس طرح سی سی ٹی وی فوٹیج میں صاف نظر آرہا ہے، بلکہ وہ چیخ و پکار سے اردگرد کے لوگوں کو متوجہ کرتی۔ چند ماہ پہلے جب اس موضوع پر ’’اُڈاری‘‘ نامی ڈرامے کے ذریعے آگاہی کی کوشش کی گئی تو ’’پیمرا‘‘ نے چینل کو نوٹس بھیج دیا، کیوں کہ لوگوں نے اس ڈرامے کے خلاف شکایتوں کے انبار لگا دیے تھے کہ اس میں فحش مناظر ہیں۔ یہی سوچ ہمیں مار رہی ہے، ہماری جھوٹی انا اور فرضی غیرت اس راستے میں سب سے بڑی رکاؤٹ ہیں۔
ہمارے ملک کے قانون (حدود آرڈیننس) کے مطابق شادی شدہ تعلق کے علاوہ تمام جنسی تعلقات ناجائز ہیں اور ریاست کے آئین کے مطابق جرم ہیں، لیکن عملی طور پر اس قانون نے کبھی کسی کا تحفظ نہیں کیا ہے۔ مجرم بااثر ہونے کی بنا پر کھلے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ یہاں پر بھی ایران کی طرح اس قسم کے جرائم میں ملوث افراد کو چوراہوں پر پھانسیاں دے کر مثالیں قائم کرنی چاہئیں۔ یہاں پر قانون کا اثر اتنا کم ہے کہ قتل کا مجرم شاہ رخ جتوئی پھانسی کے پھندے سے ’’وکٹری‘‘ کا نشان بنا کر قانون کے چہرے پر تھپڑ رسید کردیتا ہے۔ اب وہ وقت آنا چاہیے کہ ہماری پوری قوم حکومت کے ساتھ مل کر قانون کی حکمرانی قائم کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر بچوں کے نصاب میں اپنے دفاع کے حوالے سے مضامین شامل کریں۔ اس کے علاوہ بچوں کیلئے فوری طور پر دو ہندسوں والا الگ ہیلپ لائن قائم کیا جائے جو ہر بچے کو ازبر ہو۔ ایسے جرائم کی روک تھام کیلئے قوانین پاس کرکے الگ عدالتیں بنائی جائیں جس سے سپیڈی ٹرائل ممکن ہو۔ آخر میں ایسے مجرموں کو سرعام پھانسیاں لگانی چاہیے جس سے پوری قوم سبق حاصل کرے۔ کیوں کہ کوڑے کے ڈھیر پر ملنے والی یہ لاش زینب کی نہیں بلکہ ہم سب کی ہے۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔