ظفر علی المعروف کاکا کے بقول: ’’شاہ عالم خان پروفیسر صاحب کے ساتھ ایک فاتحہ خوانی میں میرا آمنا سامنا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ڈین صیب سے کالج میں ایک طالب علم نے پوچھا کہ کھڑے ہوکر کھانا حرام ہے یا حلال؟ ڈین صیب نے جواباً کہا کہ ’’بیٹا، سب سے پہلے یہ جان لو کہ حرام اور حلال کہتے کسے ہیں؟‘‘ طالب علم کو ایک مثال دیتے ہوئے ڈین صیب نے کہا کہ ’’بیٹا، اگر آپ ’’اولین ماما‘‘ سے آٹھ آنے کے پکوڑے خرید لیں، تاج چوک تک بھاگتے ہوئے انہیں کھاتے جائیں۔ اگر آپ نے حلال پیسوں سے پکوڑے خریدے ہوں، تو وہ حلال ہی ہوں گے۔ اس طرح اگر آپ حرام کی کمائی سے پکوڑے خرید کر بیت اللہ شریف میں بیٹھ کر کھائیں گے، تو وہ حرام ہوں گے۔ (یاد رہے کہ ’’اولین ماما‘‘ نامی ایک شخص اُس وقت جہانزیب کالج میں پکوڑے بیچا کرتے تھے۔ ان کے پکوڑے اساتذہ و طلبہ میں یکساں مقبول ہوا کرتے تھے۔ بعد میں وہ سنہ نوے، اکانوے عیسوی کو فوت ہوئے)۔
بچپن میں راقم دیگر اہل سوات کی طرح لفظ ’’ڈین‘‘ (Dean) کو ’’ڈِنگ‘‘ بولا کرتا تھا۔ دراصل ڈھینگ یا لم ڈھینگ کو پختو میں ’’ڈِنگ‘‘ کہتے ہیں۔ اب ڈین صیب کو اہلِ سوات ’’ڈِنگ صیب‘‘ کیوں بولتے تھے؟ اس حوالہ سے برخوردارم عبدالباسط کہتے ہیں کہ ’’بقول میری دادی کے ڈِنگ صیب نے گھر میں ڈِنگ (ڈھینگ یا لم ڈھینگ) پال رکھے تھے، اس لئے ان کا نام ڈِنگ صیب پڑگیا تھا۔‘‘ جبکہ راقم نے اپنے دادا جی سے سنا تھا کہ ڈین صیب دراز قد تھے، اس لئے ان کا یہ نام پڑگیا تھا۔ لیکن یہ دونوں حوالے غلط ہیں اور حقیقت کچھ اور ہے۔ دراصل قاضی حسین احمد مرحوم (سابقہ امیر جماعت اسلامی پاکستان) سنہ ساٹھ کی دہائی میں ڈین صیب کے ساتھ ان کے حجرے میں رہائش پذیر تھے۔ ان ادوار میں قاضی صاحب (مرحوم) جہانزیب کالج میں درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک تھے۔ ظفر علی کاکا کے بقول: ’’میں نے بڑے بوڑھوں میں کسی سے سنا تھا کہ سب سے پہلے میرے والد بزرگوار کو ’’ڈین صیب‘‘ کے نام سے قاضی حسین احمد (مرحوم) نے ہی پکارا تھا۔ اس کے بعد یہ نام آج تک ان کے لئے پکارا جاتا ہے۔‘‘
میری ذاتی تحقیق کے مطابق مرحوم بادشاہ زادہ المعروف ’’ڈین صیب‘‘ نے سنہ انیس سو اٹھائیس عیسوی کو مینگورہ شہر میں نواب خان کے ہاں آنکھ کھولی تھی۔ نواب خان پختونوں کے یوسف زئی قبیلہ کی لنگرخیل شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈین صیب نے چوتھی جماعت تک سوات میں تعلیم حاصل کی۔ کہتے ہیں کہ سیدو شریف ہسپتال کی پرانی کیجولٹی دراصل اس وقت ایک کچی عمارت پر مشتمل تھی اور اس میں چوتھی جماعت تک بچوں کو پڑھایا جاتا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے پشاور میں اپنا تعلیمی سلسلہ آگے بڑھایا۔ یہاں تک کہ ایف اے اسلامیہ کالج پشاور سے کیا۔ چوں کہ ابھی بٹوارا نہیں ہوا تھا اور پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر نہیں ابھرا تھا، اس لئے انہوں نے گریجویشن کرنے کی غرض سے بمبئی کا رختِ سفر باندھا۔ اس کے بعد جلد ہی نہ صرف ماسٹرز کی ڈگری مصر کے ’’جامعہ ازہر‘‘ سے لی بلکہ وہاں سے فقہ میں پی ایچ ڈی (سنہ اُنیس سو اَٹھاون عیسوی) مکمل کرکے ہی وطن واپس آئے۔
ڈین صیب کے صاحبزادے ظفر علی المعروف کاکا کے بقول جب ڈین صیب جامعہ ازہر میں تھے، تو اُس وقت مصر میں جنگ جاری تھی۔ اس وقت وہاں کے حالات سے آگاہ ہونے کے لئے ریڈیو واحد ذریعہ تھا۔ بقول کاکا، ایک دفعہ ڈین صیب نے ریڈیو کو اُردو زبان میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’میرا نام بادشاہ زادہ ہے اور میں ریاستِ سوات سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس موقعہ پر میں اپنے خاندان کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ میں بخیر و عافیت ہوں اور یہاں (مصر میں) مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ کاکا کے بقول ریاستی دور میں مذکورہ انٹرویو کسی نے سنا اور ہمارے دادا جان (مرحوم) کو ڈین صیب کی خیریت کے حوالے سے آگاہ کیا۔ پھر وطن واپس آنے کے بعد ڈین صیب نے جہانزیب کالج میں اسلامیات کے پروفیسر کی حیثیت سے کلاسیں لینے کا عمل شروع کیا۔
ڈین صیب راستوں کو کھلا رکھنے، سڑکوں اور روڈوں کو تعمیر کرنے کا عمل پسند کرتے تھے۔ بقول کاکا: ’’چینہ سے لنڈیکس تک کی سڑک ڈین صیب نے نکالی ہے۔ وہ ہر چھوٹے بڑے کو راستے کشادہ رکھنے کی ترغیب دیا کرتے۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ بطورِ خاص حقوق العباد پر زور دیا کرتے۔ بعض مساجد میں جمعہ کے روز خطبہ بھی دیا کرتے۔ اپنی روشن خیالی کی وجہ سے اس دور میں اُن کے خلاف فتوے بھی لگے۔ بعض ملاؤں کا کہنا تھا کہ ڈین صیب عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔ ڈین صیب کے دفاع میں والی صاحب گاہے گاہے فتوے لگانے والے ملاؤں کا جواب ان الفاظ میں دیا کرتے کہ آپ حضرات عام مولوی ہیں جبکہ ڈین صیب باقاعدہ عالم ہیں۔ اس لئے آپ لوگ ڈین صیب کے آگے دست بستہ کھڑے رہیں، نہ کہ ان پر فتوے لگاتے پھریں۔ برسبیل تذکرہ، مجھے ایک بار رحیم اللہ باباجی (مرحوم) نے کہا تھا کہ میں اور فضل محمد ’’مہتمم صاحب‘‘ جب کسی مشکل میں پڑتے تھے، تو حل کے لئے ہم ڈین صیب کے حضور حاضری دیا کرتے تھے۔‘‘
کیا ڈین صیب واقعی عالم تھے؟ اس حوالے سے یہ ثبوت کافی ہے کہ وہ جامعہ ازہر (مصر) کے ساتھ ساتھ دیو بند مدرسہ کے شوریٰ کے بھی ممبر تھے۔ ان کو ذکر شدہ دونوں اداروں سے باقاعدہ طور پر وقتاً فوقتاً خطوط ارسال ہوتے تھے۔
ڈین صیب کے حوالے سے ظفرعلی کاکا اپنی یادوں کو بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دن یوں ہی ڈین صیب کی شخصیت کے حوالے سے ڈاکٹر روشن ہلال (مرحوم) سے گفت و شنید ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے باتوں ہی باتوں میں ایک تاریخی حوالہ دیا، جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے: ’’گراسی گراؤنڈ میں آفیسر کلب جو ریاستی دور سے چلا آ رہا تھا، میں وقت کے ساتھ ساتھ جواری اور شراب نوشی کا عمل گویا ایک روٹین بنتا چلا گیا۔ اس لئے کئی آفیسر اُس ماحول کو پسند نہیں کرتے تھے اور اِس وجہ سے آفیسر کلب نہیں جایا کرتے تھے۔ ڈین صیب اُس وقت کالج کالونی میں ایک سرکاری بنگلہ میں رہائش پذیر تھے۔ اُنہوں نے آفیسر کلب کے متوازی ایک اور کلب اپنے بنگلے میں کھولا۔ وہ تمام آفیسر جو جوے یا شراب نوشی کے خلاف تھے، آفیسر کلب کو چھوڑ چھاڑ کر ڈین صیب کے ساتھ مراسم بڑھانے وہاں کا رُخ کرنے لگے۔ ڈاکٹر نجیب، جاجا پرنسپل صاحب، عبدالواحد خان جیسی قد آور شخصیات کے ساتھ ساتھ میں (ڈاکٹر روشن ہلال) بھی وہاں حاضری دینے لگا۔ جہاں شطرنج کی چالیں چلتیں اور خوب گپ شپ ہوتی۔ یوں ایک اچھی خاصی سوسائٹی عمل میں آگئی۔‘‘
آج سے پچاس پچپن سال پہلے مینگورہ شہر میں مسافروں اور خاص کر طالب علموں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہوٹل اور ہاسٹل اتنے نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ اس لئے طالب علم بطورِ خاص ڈین صیب کے حجرے میں رہائش اختیار کیا کرتے تھے۔ افضل خان لالا چوں کہ ڈین صیب کے قریبی دوست تھے، سو اُن کا ایک بیٹا پڑھائی کی غرض سے ڈین صیب کے حجرے کو بطور ہاسٹل استعمال کرتا تھا۔ جسٹس شیر محمد خان، وقار خان ایم پی اے کے ایک بھائی اور بونیر کے مشہور پیر ’’بابر‘‘ علم کے حصول کے لئے ڈین صیب کے ساتھ حجرے میں رہائش پذیر تھے۔ ان شخصیات کے علاوہ شانگلہ کے ڈاکٹر اسفندیار کے بھائی، لیلونئی کے سرانزیب میاں، زرین خان (خان آف آلائی) اور ان کے بیٹے جمال ناصر خان جو ڈسٹرکٹ ناظم رہ چکے ہیں، بھی ڈین صیب سے راہ و رسم بڑھانے ان کے حجرے آیا کرتے تھے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس دور میں یہی کوئی سو سے زیادہ تعداد میں طلبہ ڈین صیب کے حجرے کو ہاسٹل کے طور پر استعمال کرچکے ہیں۔ میری ذاتی تحقیق کے مطابق ذکر شدہ سلسلہ ڈین صیب کی وفات کے پینتیس سال بعد بھی آج تک ان کے جگر گوشے اسی طرح بحال رکھے ہوئے ہیں۔
ڈین صیب کے حوالہ سے یہ بات خاصی مشہور ہے کہ انہوں نے فقہ کے حوالے سے کئی کتب لکھی تھیں۔ بعد میں ڈین صیب کی وفات کے بعد بدقسمتی سے کسی اور نے مذکورہ کتابوں کو اپنے نام سے چھاپ کر خود کو ’’مصنف‘‘ یا ’’مؤلف‘‘ کہلوانا پسند کیا۔
ڈین صیب والدین کے حقوق کے حوالے سے کافی حساس واقع ہوئے تھے۔ ظفرعلی کاکا کے بقول ’’میری والدہ صاحبہ کہا کرتی تھیں کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ڈین صیب کسی محفل میں اس وقت تک بیٹھے ہوں، جب تک ان کی والدہ ماجدہ نہیں بیٹھی ہوں۔ اس طرح چہل قدمی کے وقت حتی الوسع کوشش کرتے کہ والدین سے ایک قدم بھی آگے نہ رکھا جائے یعنی ان کے پیچھے پیچھے چلنے کو ترجیح دیتے۔‘‘
ڈین صیب نے دو شادیاں کی تھیں۔ فضل خان (مرحوم) کے بعد بالترتیب ڈاکٹر محمد ابراہیم یوسف زے (شیخ زید آئی ہاسپٹل، ریاض)، محمد عباس (ایڈمنسٹریٹر شفا سنٹر سیدو شریف سوات، پاکستان ہاکی فیڈریشن ممبر)، محمد ابو سعید (ایک کامیاب بزنس مین)، شوکت علی خان (بورڈ آف ڈائریکٹر شفا سنٹر سیدوشریف، سوات)، ظفرعلی المعروف کاکا (وائس پریزیڈنٹ پاکستان بیڈمنٹن ایسوسی ایشن، پریزیڈنٹ کے پی کے بیڈمنٹن ایسوسی ایشن اور صوبہ خیبر پختونخوا کے اولین اولمپک ممبر) اور ایڈووکیٹ حضرت معاذ (سابقہ پریزیڈنٹ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن) ڈین صیب کے جگر گوشے ہیں۔
انیس سو اُناسی عیسوی کو اکیاون سال کی عمر میں ڈین صیب وفات پاگئے۔ کہتے ہیں کہ اُس وقت وہ تھانہ کے کالج میں بحیثیت پرنسپل اپنے فرائض انجام دے رہے تھے اور ان کا تبادلہ واپس جہانزیب کالج ہوا تھا۔
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔