فارسی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’پیراں نمی پرند مریداں می پرانند‘‘ یعنی پیر خود نہیں اُڑتے، اُن کے مرید انھیں اُڑاتے ہیں۔ یہ کہاوت دیگر پیر مریدوں کے متعلق صادق بیٹھتی ہوگی، مگر شائد راقم اس حوالے سے خوش نصیب ہے کہ اسے ایک اُڑتا پیر (فضل ربی راہیؔ) ملا ہے۔
راہیؔ صاحب کے حوالے سے رضا علی عابدی رقمطراز ہیں:’’فضل ربی راہیؔ کی تحریر میں دو خوبیاں ہیں۔ ایک تو راہ میں ملنے والوں کا بیان ہے، ٹیکسی ڈرائیوروں کی روداد ہے، قیام گاہوں کے قصے ہیں اور ظاہر ہے کہ طعام گاہوں کے ذکر کے بغیر روداد کب مکمل ہوئی ہے؟ دوسری خوبی شہروں، ان کے شہریوں، عمارتوں، عجوبوں اور مناظر کا بیان ہے۔ اس خوبی میں ان کی سادگی اور کہیں کہیں بے خبری ایک اور طرح کا سماں باندھتی ہے۔ وہ سیاحوں کی بسوں میں سفر نہیں کرتے نہ ہی سیر کرانے والے گائیڈوں کی تقریریں سنتے ہیں۔ وہ ہر علاقہ اور ہر مقام خود دریافت کرتے ہیں اور ان کا یہی انداز ان کی اس کتاب کو دوسرے سفرناموں سے مختلف بناتا ہے۔‘‘
رضا علی عابدی راقم کی طرح کوئی ’’لوکل ٹائپ‘‘ لکھاری نہیں ہیں۔’’وکی پیڈیا‘‘ ان کی شخصیت کچھ یوں بیان کرتی ہے: ’’رضا علی عابدی ایک پاکستانی سفر نامہ نگار، صحافی، مصنف اور محقق ہیں۔ عمر کا ایک عرصہ بی بی سی اردو ریڈیو میں گزارا۔ کئی کتب کے مصنف و مؤلف ہیں۔ جن میں ’’کتابیں اپنے آبا کی‘‘، ’’ہمارے کتب خانے‘‘، ’’جرنیلی سڑک‘‘ وغیرہ مشہور ہیں۔‘‘
رضا علی عابدی کے علاوہ اس اُڑتے پیر کی شخصیت مستنصر حسین تارڑ یوں بیان کرتے ہیں: ’’خوشحال خان خٹک نے کہا تھا کہ سوات وہ وادی ہے جو لوگوں کے دلوں کو خوشی سے بھر دیتی ہے۔ تو آج کے عہد میں خوشی کی جتنی کمی ہے، وہ صرف سوات جانے سے ہی پوری ہوسکتی ہے۔ اور اگر سوات جانا ہے اور وہاں کہاں کہاں جانا ہے اور کیا دیکھنا ہے؟ بس یہی مشکل سوالات تھے جنھیں راہیؔ نے حل کر دیا ہے اور یہ مشکل آسان ہوگئی ہے۔‘‘
مجھ سے پہلے سوات کے صف اول کے لکھاری’’منزل بہ منزل‘‘ پر بہترین تبصرے کرچکے ہیں۔ اور جہاں تک میری بات ہے، تو بقول منیرؔ نیازی
ضروری بات کرنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
ہاں البتہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ منزل بہ منزل کا لبادہ اوڑھنے سے پہلے میں راہیؔ صاحب کے اسفار کو ایک مقامی اخبار کے ادارتی صفحہ کی زینت بنا چکا ہوں۔ اور اس سے بھی زیادہ فخر کی بات یہ ہے کہ ’’منزل بہ منزل‘‘ کا لبادہ اوڑھنے کے بعد کتاب کی پروف ریڈنگ کا بارِ گراں ان ناتواں کاندھوں پر اٹھا چکا ہوں۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد میں یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ راہیؔ صاحب واقعی ایک ایسے پیر ہیں جو بغیر پروں کے نہ صرف خود اُڑتے ہیں بلکہ قارئین کو بھی دیس دیس کی سیر کی غرض سے اپنے ساتھ اڑاتے رہتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی ٹکٹ کے۔
یورپ اور دبئی کے سفرناموں پر مبنی یہ کتاب ’’منزل بہ منزل‘‘ ایک ٹکٹ میں دو نہیں بلکہ تین مزوں کی مصداق ہے۔ کتاب میں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ پورے تین سفرناموں کو شامل کیا گیا ہے اور اسے ادارہ المیزان ناشران و تاجران کتب نے چھاپا ہے۔ کتاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ مجلد بھی ہے۔ ایک سو بیالیس صفحات کی یہ کتاب مناسب قیمت کے ساتھ شعیب سنز پبلشرز اینڈ بکسیلرز جی ٹی روڈ سوات کے علاوہ ملک بھر کے کسی بھی اچھے بک اسٹال سے باآسانی دستیاب ہوسکتی ہے۔
لازم نہیں کہ آپ بھی میری ہی طرح محسوس کریں مگر یقین جانئے میں نے جب بھی ’’منزل بہ منزل‘‘ کی ورق گردانی کی ہے، تو مجھے یوں محسوس ہوا ہے جیسے دوران سفر راہیؔ صاحب لمبے لمبے ڈگ بھرتے چلے جا رہے ہیں اور میں گویا سائے کی طرح ان سے چمٹا ہوا ہوں۔ چند دن اٹلی کے تاریخی شہر روم میں گزارنے ہوں یا جرمنی کے دارالحکومت برلن میں، ہالینڈ کے شہر ایمسٹر ڈیم میں قیام ہو یا خوشبوؤں کے شہر پیرس کی سیر، لندن کی طرف سفر ہو، یورپ کی یاترا ہو یا وہاں سے دبئی کی رنگینوں کا نظارہ کرنا مقصود ہو، ایک لمحہ بھی قاری کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ شریکِ سفر نہیں ہے۔ راہیؔ صاحب اگر کہیں سیٹ بیلٹ باندھتے ہیں، تو اگلی نشست پر براجمان قاری بھی خود کو اس عمل سے گزرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اس طرح اگر کہیں کسی چٹخارے دار کھانے کا ذکر ہو رہا ہے، تو قاری غیر محسوس انداز سے خود کو ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا پاتا ہے۔
’’منزل بہ منزل‘‘ کی خاص بات جو مجھے اچھی لگی، وہ یہ ہے کہ راہیؔ صاحب نے ہر آٹھ دس صفحہ بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس بدقسمت ملک جسے دنیا ’’پاکستان‘‘ کے نام سے جانتی ہے، کو اللہ تعالیٰ نے وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں ہر شے وافر مقدار میں موجود ہے، اگر کسی چیز کی کمی ہے، تو وہ ایک اچھی، سچی اور مخلص قیادت کی ہے۔
پروفیسر احمد فوادؔ ’’منزل بہ منزل‘‘ کے حوالے سے کتاب کے صفحہ نمبر نو اور دس پر رقمطراز ہیں کہ’’اچھے سفرنامے کی مختصر ترین تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ پڑھنے والا اس سے سیر نہ ہو اور اس کے ہونٹوں پر ’’ہَل مِن مَزید‘‘ کی گردان جاری رہے۔ ’’منزل بہ منزل‘‘ کا مصنف اپنے قاری کو بور ہونے کے لئے درکار مہلت دینے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہے۔‘‘
احمد فوادؔ صاحب کے اس تحریری دعوے کے بعد بھی اگر کوئی اس بات پر مصر ہے کہ ’’راہیؔ صاحب نہیں اُڑتے، سحابؔ جیسے مرید انھیں اُڑاتے ہیں‘‘ تو میرزا غالب ؔکے بقول
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔