صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس (یروشلم) منتقل کرنے پر شروع ہونے والی بحث نے دنیا کی سیاست کا رُخ ہی بدل دیا۔ چند دن قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کو واپس لینے کے لیے ایک قرارداد پیش کی گئی۔ سلامتی کونسل کے 14 اراکین نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکہ نے اگرچہ اس قرارداد کو ویٹو کردیا لیکن اسے اقوام عالم کے موڈ کا اندازہ ضرور ہوگیا۔ بعد ازاں یہی قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہوئی، تو فلسطین کے لیے زبردست عالمی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ 193 ملکی جنرل اسمبلی کے 128 ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیئے ۔ قرارداد کی مخالفت کرنے والے ممالک کی فہرست میں اکثر ایسے ہیں جن کا پہلی بار نام سننے کو ملا۔ غالباً انہوں نے امریکہ یا اسرائیل کے ساتھ چند سو ملین ڈالر کے عوض اپنی حمایت کا سودہ کیا ہوگا۔
جنرل اسمبلی کی قرارداد کی حیثیت علامتی ہے لیکن یہ اس امر کی عکاسی ضرور کرتی ہے کہ عالمی برادری صدر ٹرمپ یا امریکہ کے فیصلے اور طرزِسیاست سے سخت ناخوش ہے۔ امریکہ جو کل تک اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن عمل کا پرچارک تھا، نہ صرف ایک فریق بن گیا بلکہ فلسطینی لیڈرشپ کا اعتماد بھی کھو بیٹھا۔
جنرل اسمبلی کی قرارداد نے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح کی کہ ٹرمپ جیسے حکمرانوں کی موجودگی کے باوجود دنیا میں خیر کا پہلو ابھی غالب ہے۔ انصاف کا ساتھ دینے والے نہ صرف موجود ہیں بلکہ وہ بدی کی قوتوں کے دباؤ کے باوجود مقابلے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ امریکہ کے خلاف ووٹ دینے پر اقوام متحدہ میں اس کی مستقل مندوب ’’نکی ہیلی‘‘ نے جو زبان اور لب ولہجہ اختیار کیا۔ اس نے امریکی کی نام نہاد اخلاقی برتری کا بھی جنازہ نکال دیا۔ بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ امریکہ کے لیے گوربا چوف بنتا جا رہا ہے۔

جنرل اسمبلی کی قرارداد نے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح کی کہ ٹرمپ جیسے حکمرانوں کی موجودگی کے باوجود دنیا میں خیر کا پہلو ابھی غالب ہے۔ (Photo: Theirworld)

فلسطین کا مسئلہ ہو یا کشمیر، ہماری خواہش ہوتی ہے کہ دنیا انصاف کا ساتھ دے اور ہمارے ساتھ اظہار یکجہتی کرے۔ ہوسکے تو مالی امداد بھی فراہم کرے۔ اس کے برعکس دنیا میں کوئی حادثہ ہوتاہے یا قدرتی آفت آتی ہے، تو ہم لاتعلق سے ہوجاتے ہیں۔ حال ہی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کوئٹہ چرچ پر حملہ ہوا، تو سوائے زبانی کلامی مذمتوں کے عیسائی برادری کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا کوئی دوسرا طریقہ ہماری سمجھ میں نہ آیا۔ پاکستان میں آباد غیر مسلموں کے ساتھ کیسے تعلقات کار رکھے جائیں اور انہیں کس طرح قومی دھارے میں شامل کیا جائے؟ اس بارے میں قومی سطح پر ہمارا ذہن الجھا ہوا ہے۔
گذشتہ سترہ برسوں میں دہشت گردوں نے جہاں مساجد اور خانقاہوں کو نشانہ بنایا، وہاں چرچوں اور عیسائیوں پر بھی حملے کیے۔ عیسائیوں کو ہدف بنانے کا ایک مقصد یہ تھا کہ مغربی دنیا کو باور کرایا جائے کہ پاکستان عیسائیوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک بن چکا ہے۔ اس طرح مغربی ممالک میں پاکستان مخالف جذبات کو مزید مہمیز ملتی ہے۔
پاکستان کو ایک محفوظ ملک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل کو معلوم ہو کہ اسلام اور آئین پاکستان دیگر مذہب کے پیروکار شہریوں کے تحفظ کے لیے کیا احکامات دیتا ہے؟ بالخصوص آج کل کے ماحول میں نئی نسل کو یہ بتانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ کوئی بھی ملک یا معاشرے عالمگیریت کی موجودہ لہر سے کٹ کر الگ سے اپنی دنیا نہیں بسا سکتے ہیں۔ اسپین میں غیر مسلموں کے ساتھ روا رکھا گیا حسنِ سلوک ضرب المثل بن چکا ہے۔ مسلم حکمرانوں نے غیر مسلموں کے مقدس مقامات کی تعمیر کرائی اور بسا اوقات تعمیر میں مدد دی۔ کوفہ میں خالد بن عبداللہ نے چرچ تعمیر کراکر عیسائیوں کے حوالے کیا۔ ایسے بے شمار واقعات تاریخی کتب میں محفوظ ہیں۔ بدقسمتی سے ان واقعات کو سکولوں کے نصاب میں پڑھایا جاتا ہے اور نہ مسجد اور مکتب میں ان کا ذکر ہوتا ہے۔ ایسے واقعات کو عام کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستانیوں کو دیگر مذاہب اور مسالک کے ساتھ رہنے کا قرینہ سکھائیں۔

پاکستان کو ایک محفوظ ملک بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل کو معلوم ہو کہ اسلام اور آئین پاکستان دیگر مذہب کے پیروکار شہریوں کے تحفظ کے لیے کیا احکامات دیتا ہے؟ (Photo: Dunya Blogs – Dunya News)

جسٹس امیر علی مسلم برصغیر کے ایک بہت بڑے قانون دان اور منصف گزرے ہیں۔ انگریزوں منصفین نے الزا م لگایا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے، تو انہوں نے ’’سپرٹ آف اسلام‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔اس کتاب میں انہوں حضورؐ اور عیسائیوں کے قبیلے مابین ہونے والے ایک عہدنامہ کا مفصل ذکر کیا ہے جو ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ جسٹس امیر علی لکھتے ہیں: ’’628 ء میں سینٹ کیتھرین کی خانقاہ کے ایک وفد نے حضرت محمدؐ سے پناہ کی درخواست کی۔ رسالت مابؐ نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ حقوق کا ایک عہد نامہ بھی لکھ دیا، جس کی عبارت کچھ یوں ہے، یہ پیغام محمد ابن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ، چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک، ایک عہد ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ بے شک میں، میرے خدمت گار، مددگار اور پیروکار ان کا تحفظ کریں گے۔ کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں؛ اور خدا کی قسم میں ہر اس بات سے اجتناب کروں گا جو انہیں ناخوش کرے۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا۔ ان کے منصفوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ نہیں کرے گا، نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ وہاں سے کوئی شئے مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔ اگر کسی نے وہاں سے کوئی چیز لی، تو وہ خدا کے عہد کو توڑنے اور اس کے نبیؐ کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔ بے شک وہ میرے اتحادی ہیں اور انہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے، جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں سفر کرنے یا جنگ پر مجبور نہیں کرے گا۔ ان کے لئے جنگ مسلمان کریں گے۔ اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان سے شادی کرے گی، تو ایسا اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو گا۔ اس عورت کو عبادت کے لئے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ ان کے گرجا گھروں کا احترام کیا جائے گا۔ انہیں گرجا گھروں کی مرمت یا اپنے معاہدوں کا احترام کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ (مسلمانوں کی) قوم کا کوئی فرد روزِ قیامت تک اس معاہدے سے روگردانی نہیں کرے گا۔‘‘

جسٹس امیر علی کی فائل فوٹو (Photo: History Pak)

افسوس اس امرکا ہے کہ اسلام کا روشن چہرہ کو دنیا کو دِکھانے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔ عالمی سطح پر بھی طاقتور میڈیا مسلمانوں کی شبیہ بگاڑ کر پیش کرتاہے۔وہ انہیں امن وآشتی کا دشمن اور جنگ وجدل کا رسیا بنا کر پیش کرتا ہے۔ اس امیج کو بدلنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں فلسطین اور کشمیرپر ہمیں عالمی برداری کی حمایت مل سکے گی۔؂

…………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔