ملاکنڈ ڈویژن میں کٹ گاڑیوں کا قضیہ

میرے پاس کٹ گاڑی تو کیا موٹر سائیکل بھی نہیں ہے، لیکن ہزاروں لوگوں کے پاس کٹ گاڑیوں سے پیدا ہونے والے مسائل پر دل پریشان ضرور ہے۔ اگر دیکھا جائے، تو نان کسٹم پیڈ گاڑی وہ بندہ لیتا ہے جو متوسط اور قدرے غریب ہی ہوتا ہے۔ کیوں کہ کسٹم پیڈ گاڑی یا دیگر لگژری ماڈل کی گاڑیاں ہم جیسے متوسط لوگ نہیں لے سکتے۔ کیوں کہ ہم آف شور کمپنیاں نہیں رکھتے، منی لانڈرنگ نہیں کرتے، مالی اثاثے نہیں چھپاتے، کالے دھن کو گورا نہیں کرتے بلکہ حق حلال کی مقدور بھر آمدنی سے اپنے لیے سہولیات تلاش کرتے ہیں، چھوٹی چھوٹی خوشیاں کیش کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ملاکنڈ ڈویژن میں ایسا کوئی لاٹ نہیں جس کی کروڑوں میں آمدنی ہو۔ یہاں زیادہ تر متوسط اور غریب لوگ رہتے ہیں جو ہر حوالے سے محبِ وطن پاکستانی ہیں لیکن ان بے چاروں پر کبھی دیدہ تو کبھی نادیدہ ہاتھ بجلیاں گراتے رہتے ہیں۔ اگر سوات کی بات کی جائے، تو ریاستی دور میں یہاں امن بھی تھا، خوشحالی بھی تھی اور ترقی کا دور دورہ بھی تھا۔ یہاں تک کہ میاندم، مدین، بحرین اور کالام میں انگریز مستقبل رہائش پذیر تھے۔ ان کی اپنی کالونیاں تھیں اور تو اور ملکہ برطانیہ بھی خوشی خوشی یہاں تشریف لاتیں اور شکار کھیلتیں۔
1969ء میں جب ریاست سوات کا پاکستان میں ادغام ہوگیا، تب سے مصیبتوں اور تکلیفوں کا اِک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو کبھی دہشت گردی، تو کبھی ترقیاتی کاموں میں عدم توجہی، حکومتی بے رُخی اور کبھی کسٹم اور نان کسٹم کے بکھیڑوں کے ساتھ ساتھ آج کل کٹ گاڑیوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کی صورت میں ہم پہ لٹکی تلوار کی صورت مسلط ہے۔

ملاکنڈ ڈویژن معاہدے کی رو سے ٹیکس فری زون ہے۔ (Photo: Wikipedia)

دیکھا جائے، تو پورا ملاکنڈ ڈویژن معاہدے کی رو سے ٹیکس فری زون ہے۔ کارخانوں اور دیگر کاروباری مراکز کو ٹیکس معاف ہے۔ این سی پی گاڑیوں سے لے کر دکانوں اور گھروں پر لگنے والے ٹیکس معاف ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کٹ گاڑیوں اور اُن کے مالکان کے خلاف گرینڈ آپریشن ہو رہا ہے؟ حالاں کہ یہ کٹ گاڑیاں دیگر این سی پی گاڑیوں کی طرح چور نہیں۔ ان کے پرزہ جات پر باقاعدہ ٹیکس ادا ہوچکا ہوتا ہے اور یہ پرزہ جات اور گاڑی کے حصے دیگر گاڑیوں کی بہ نسبت نئے بھی ہوتے ہیں۔
سننے میں آیا ہے کہ حکومتی اداروں کو یہ خدشہ ہے کہ کٹ گاڑیاں دہشت گردی میں استعمال ہوسکتی ہیں، تو صحیح گاڑیوں کی کون سی گارنٹی ہے کہ وہ استعمال نہ ہوں گی؟ گاڑی کا اصل حصہ چیسس ہوتا ہے۔ اُس پہ اِک خاص نمبر ہوتا ہے۔ اُس نمبر کو چیک کرکے رجسٹر کیا جاسکتا ہے اور چوری شدہ گاڑی کا سراغ لگا کر ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے، لیکن یہ کیا کہ کٹ گاڑیوں کو سکریپ بنادیا جائے۔ یہ سراسر نا انصافی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے اس فیصلے پہ نظرِثانی کرے اور اس حوالہ سے نرمی کرے۔ کیوں کہ اس سے ہزاروں افراد کی روزی روٹی وابستہ ہے۔
پاکستان میں تو ویسے بھی انچاس فی صد بے روزگاری ہے۔ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں مشکلات کی بجائے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ اگر اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا، تو ملاکنڈ ڈویژن کا بے چارہ مفلوک الحال اور دہشت گردی کا شکار متوسط طبقہ مزید مایوسی کا شکار ہوگا۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ ملاکنڈ ڈویژن کی معیشت تباہ ہوگی۔ اس کاروبار سے بالواسطہ یا بلاواسطہ منسلک افراد مثلاً مستری، کاری گر، پیٹرول پمپ مالکان، سپیئر پارٹس دکان دار، محصول چونگی والے، سروس اسٹیشنوں والے اور بارگین والے سے لے کر کلینر، ڈرائیور اور مزدور طبقہ تک متاثر ہوگا۔
بعض ذرائع سے سننے میں آیا ہے کہ اس میں اِک ’’خاص مافیا‘‘ کا ہاتھ ہے۔ مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ پولیس، بارگین والے، انکم ٹیکس والے، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن والے سے لے کر بڑے بڑے ڈیلروں تک کی ملی بھگت ہے۔ جس کے ڈانڈے مغربی سرحد سے باہر بھی جاکر ملتے ہیں۔ اگر یہاں پہ اتنی سختی کی جا رہی ہے، تو یہ گاڑیاں جہاں سے بارڈر کراس کرکے اونٹوں، خچروں اور دیگر ذرائع سے پاکستان آتی ہیں، جُڑتی بنتی ہیں، وہاں کیوں قدغن نہیں لگائی جاتی کہ ملاکنڈ ڈویژن والوں ہی پہ آپریشنوں کی پریکٹس کی جائے۔
خدارا! اس تجربہ گاہ سے اب باز آئیں۔ جیو اور جینے دو پر عمل کرکے ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کو سکھ کا سانس لینے دیں۔

…………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔