ایک سفر وہ ہے جس میں
پاؤں نہیں دل تھکتا ہے
اور ایک سفر وہ ہے، جو مَیں مسلسل پچھلے 40 سال سے کرتا آ رہا ہوں کہ جس میں دل نہیں تھکتا، پاؤں تھک جاتے ہیں۔ اگرچہ اب جسم میں وہ طاقت اور وہ نیرنگیِ چال نہیں رہی، جو کبھی پہلے ہوا کرتی تھی۔ جسم اب نڈھال سا رہتا ہے۔ جنبشِ بدن اور روانیِ قدم میں ہم آہنگی کا بھی فقدان سا ہے۔ قدم تھک سے گئے ہیں۔ جسم و جاں میں اب پہلی سی تمکنت بھی نہیں۔ چلتے وقت میرے پاؤں بھی پاؤں پڑجاتے ہیں کہ رہنے دے …… بس کر جا!
مڑ جا گھراں نوں مڑ جا…… عسق چ کی رکھیا
عجب کش مہ کش میں ہوں۔ میرے جسمانی اعضا و احساسات اب ایک دوسرے سے مسابقت نہیں رکھتے۔ ان میں ہم آہنگی کا فقدان ہوتا جا رہا ہے۔ سب نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ مسجد بنا لی ہے۔ پاؤں دماغ کی اور دماغ دل کی نہیں مانتا…… اور میرا عشق دل سمیت سب کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ عشق ایسی زبان جانتا ہی نہیں، جو میری اور میرے دل کی ہے۔ دل کی دنیا ہی اور ہے۔ دل تو ایک دم پینڈو، سیدھا سادھا، اللہ لوک اور پاگل سا ہے۔ دور دراز دیہات کا رہنے والا…… جس نے نہ اے لیول کیا نہ بی لیول…… نہ اپنے سوا اسے کسی لیول کا پتا ہی ہے، بل کہ اس کا تو ایک اپنا ہی لیول ہے۔ جو سب سے الگ اور سب سے جدا ہے۔ اس لیول کو مَیں کیا نام دوں……؟ طغیانی شیر دریا جیسی اور روانی راوی جیسی۔
از ازل تا ابد، صدیوں کا بھوکا ایک تاتاری دل…… جو مناظرِ فطرت کا بھوکا ہیم، جس کی نہ بھوک مٹتی ہے نہ اشتہا…… اور بھوک بھی ایسی کہ جو رجائے نہ رجے۔ تھکائے نہ تھکے اور ڈرائے نہ ڈرے۔ اشتہا ایسی کہ سارے شمالی علاقہ جات کے دریاؤں، ندی نالوں، چشموں اور جھیلوں کی دید کے موتی اپنے دل میں اتار کر بھی نہیں بھری۔
میری ہڈیاں چٹخنے کو آ گئی ہیں۔ سیدھی طرح چلا بھی نہیں جاتا۔ خمیدہ کمری دروازے پر دستک دے رہی ہے، مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔ پھر سوچتا ہوں کہ شاید اس کی راہ ہی اسی قسم کی ہے، جو سب سے الگ تھلگ اور سب سے جدا ہے۔ بنا سوچے سمجھے چل پڑتا ہے۔ یہ بھی ایک ڈکٹیٹر ہے اور اس کی صرف عشق سے بنتی ہے۔ عشق کچا گڑھا نہیں دیکھتا۔ عقل چاہے کروڑوں ماتم کرتی رہے، لاکھ سمجھاتی اور سیکڑوں دفعہ ڈراتی رہے۔ وہ سوہنی کو چناب کی لہروں پر اسی کچے گھڑے کے آسرے پر تیر کر پار کرنے کا اذن جاری کر دیتا ہے۔ اسے صرف حکم جاری کرنا آتا ہے۔ مزا تو تب ہے کہ جب اس عشق کو بھی کسی سے عشق ہو جائے۔ اسے تب پتا چلے گا کہ کچے گڑھے کے آسرے پر ٹھلنا کیا ہوتا ہے اور اس کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے؟ عشق گھیرتا ہے۔ لالچ کے چار حرفی ڈوڈے پلا کر۔ طمع کے تین حرفی لڈو کھلا کر۔ بن گھنگھرو تھیا تھیا نچا کر۔ زہر کا پیالہ پلا کر۔ تتی ریت پر جلا کر۔ بہ قولِ فرحت ندیم ہمایوں
نہیں ہوتی ہے راہِ عشق میں آسان منزل
سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہیے ہے
عشق کی سب راہیں ہی انوکھی اور سب سے جدا ہیں، جو انتہائی کٹھن تو ہیں ہی۔ ساتھ میں جان لیوا بھی ہیں۔وہ ایسی راہوں پر چلاتا ہے جن کا انجام موت کو گلے لگانا ہے۔ اور موت بھی ایسی کہ جو مار کر امر کر دے۔ جھنگ میں سیال قبیلے کی اور بھی حسینائیں تھیں، جنھیں اب کوئی بھی نہیں جانتا۔ تخت ہزارے میں اور بھی کتنے چرواہے تھے۔ سب مر مٹ گئے۔ زندہ ہیں تو وہ ہیں جو بیماریِ عشق سے مرے۔ جنھیں عارضۂ عشق لاحق ہوا۔ جنھیں عشق کے ناگ نے ڈسا تھا۔
عشق وہ بردہ فروش ہے جو بہ جائے کسی دنیاوی مال و زر کی ڈیمانڈ کرے، طلسمِ خوابِ زلیخا کی گھنگھور گھٹا زلفوں کی گنجلک میں اُلجھا کر مار دیتا ہے۔ عشق بڑا بے دردی ہے۔ بہت بڑا ظالم ہے۔ ذرا بھی ترس نہیں کھاتا اور نہ اسے کسی پر ترس ہی آتا ہے ۔ پہاڑوں کا عشق تو اس سے بھی سوا ہے۔ پتھر دل تو آپ نے سنا ہو گا۔ دل سمیت جس کا سب کچھ پتھر کا ہو اس سے رحم کی امید……!
پتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا مانا
بڑی بھول ہوئی ارے ہم نے یہ کیا سمجھا یہ کیا جانا
پہاڑ کیا ہیں…… کبھی اس بات پر غور تو کریں۔ کبھی ان کی اہمیت کو محسوس تو کریں۔ پہاڑ میرے لیے کیا ہیں……؟ لو پھر ذرا پڑھو تو سہی۔
پہاڑ، زمین کی سب سے پرشکوہ اور خاموش ہستیاں ہیں۔ ان کی بلند چوٹیاں اور گہری وادیاں اپنے اندر ایک ایسی کشش رکھتی ہیں، جو مجھ ناچیز جیسے انسانوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ کشش صرف ایک جغرافیائی حقیقت نہیں، بل کہ میرا ایک روحانی تجربہ ہے۔ پہاڑوں سے عشق ایک ایسا جذبہ ہے، جو ہر اس شخص کے دل میں بستا ہے، جو میری طرح فطرت کی خوب صورتی کو محسوس کرنا چاہتا ہے۔
پہاڑوں پر چڑھنا محض ایک جسمانی ورزش نہیں، بل کہ ایک روحانی سفر ہے۔ جب انسان پہاڑ کی چوٹی کی طرف قدم بڑھاتا ہے، تو وہ نہ صرف بلندیوں کو سر کرتا ہے، بل کہ اپنے اندر کی کم زوریوں اور خوف پر بھی قابو پاتا ہے۔ پہاڑوں کی خاموشی میں ایک عجیب سکون ہوتا ہے۔ وہاں شور اور دنیا کی گہما گہمی سے دور، انسان اپنے آپ سے ملتا ہے۔ یہ خاموشی ہمیں اپنے وجود پر غور کرنے کا موقع دیتی ہے اور ہمیں کائنات سے جوڑتی ہے۔ آزمایش شرط ہے۔ جس نے کبھی پہاڑوں کی صحبت کا امرت نہیں پیا، وہ اس راز کو کیا جانے۔ میرے جیسے ’’ماؤنٹین لوورز‘‘ سے پوچھو کہ وہ کیوں کھجل ہونے ادھر جاتے ہیں؟
پہاڑوں کا عشق ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی میں صبر اور استقامت کتنی اہم ہے۔ ایک مشکل چڑھائی کو سر کرنے کے لیے مسلسل محنت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح زندگی کے نشیب و فراز میں بھی ہمیں ثابت قدم رہنا پڑتا ہے۔ پہاڑ ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ ہر بڑی کام یابی کے پیچھے ایک لمبی اور تھکا دینے والی جد و جہد ہوتی ہے…… لیکن جب ہم چوٹی پر پہنچ کر منظر دیکھتے ہیں، تو ساری تھکن اور ساری مشکلیں بھول جاتے ہیں۔
پہاڑوں کا عشق ہمیں فطرت سے محبت کا سبق دیتا ہے۔ جب ہم پہاڑوں کے درمیان سفر کرتے ہیں، تو ہم مختلف قسم کے درختوں، پھولوں اور جانوروں کو دیکھتے ہیں۔ یہ تجربہ ہمیں ماحولیات کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے اور ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ ہمیں اپنی زمین کی حفاظت کرنی چاہیے۔
پہاڑوں کا عشق ایک مکمل فلسفہ ہے، جو ہمیں صبر، ہمت، سادگی اور فطرت سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی کی اصل خوب صورتی بلندیوں کو چھونے میں ہے، چاہے وہ جسمانی ہوں یا روحانی۔ پہاڑ صرف چٹانوں اور مٹی کے ڈھیر نہیں، بل کہ وہ ہمارے دلوں میں بسنے والے ایک خوبصورت احساس کا نام ہیں۔
تو پھر مَیں اُن پر فریفتہ کیوں نا ہوں …… مَیں تو ہمیشہ کہتا ہوں کہ
دیکھا ہے جو مَیں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
پس اس کی کاریگری پر شاکر رہو۔ ہر چلتی سانس کے ساتھ اس کا شکر ادا کرو۔ کیوں کہ وہی تو ہے جو سب سے بڑا خالق و مالک ہے ۔ ایک ایسا خالق کہ جس کی تخلیق میں کبھی غلطی تھی اور نہ کبھی آیندہ ہو گی۔ ’’فتبارک اللہ احسن الخالقین۔‘‘(سورۂ المومنون) یعنی ’’پس بڑی برکت والا ہے اللہ۔ سب سے بہتر بنانے والا۔
یہ زمین ہمارا گھر اور ہماری جنت ہے، مگر افسوس صد افسوس کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اس جنت کو تباہ کر رہے ہیں۔ دھواں چھوڑتی گاڑیوں، صنعتوں اور پھر درختوں کی مسلسل کٹائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اور اب چاروں طرف تباہی ہی تباہی ہے۔
جن دنوں میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ پاکستان میں ہر سو تباہی پھیلی ہوئی ہے۔ سارا ایکو سسٹم ہل کر رہ گیا ہے۔ آسمان بپھر چکا ہے۔ شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔ بادل پھٹ رہے ہیں۔ برفانی جھیلیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اس موسمی شدت کے زیرِ اثر مقامی آبادیاں لقمۂ اجل بن رہی ہیں۔ جانی و مالی نقصان بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان علاقوں میں بھی کلاؤڈ برسٹ ہو رہے ہیں۔ جدھر کبھی بارش بھی بہت کم ہوتی تھی۔ فصلیں دریا برد ہونے کے ساتھ ساتھ پورے پورے گاؤں اس آفاتِ سماوی کے لپیٹے میں ہیں۔ اللہ معاف کرے۔ طوفانِ نوح کی طرح کا سین بنتا جا رہا ہے۔ ابھی ان پانیوں نے نیچے آ کر میدانی علاقوں میں مزید تباہی پھیرنی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










