اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد کے ہال میں اُس وقت ایک دل کش اور یادگار منظر رقم ہوا، جب ملک گیر پنجابی ادبی و ثقافتی تنظیم ’’دل دریا پاکستان‘‘ (رجسٹرڈ) نے نامور شاعرہ، ادیبہ، مصورہ، سیرت نگار، کالم نگار اور سفرنامہ نگار مسرت شیریں کے اعزاز میں ایک شام اور محفلِ مشاعرہ کا اہتمام کیا۔
شام کی فضا میں ایک خاص طرح کی سنجیدگی اور وقار گھلا ہوا تھا۔ صدارت کے منصب پر جگ دھمے شاعر انجم سلیمی فروکش تھے اور صاحبۂ شام کی مسند پر وقار و انکسار کے ساتھ مسرت شیریں جلوہ افروز تھیں۔ آغاز ہی میں ’’دل دریا پاکستان‘‘ کے منتظمین نے پنجابی ادب کی تابندہ خدمات کے اعتراف میں اُنھیں نشانِ ادب پیش کیا۔ یہ لمحہ محض ایک اعزاز کا اعلان نہیں تھا، بل کہ اس بات کی شہادت تھی کہ تخلیق کے چراغ بجھائے نہیں بجھتے، وہ نسلوں کے دلوں میں روشنی بن کر اُترتے ہیں۔
محفل میں شریک اہلِ قلم کی فہرست بھی کسی کہکشاں سے کم نہ تھی۔ آغا سید ابن مظہر، سید شمشیر حیدر، حمیرا اشفاق، عمران عامی، راجہ مختار احمد سگھروی، پروفیسر عثمان صدیقی، راقم اور معروف شاعر و صحافی اقبال زرقاش جیسے معتبر نام اس شام کو وقار عطا کر رہے تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عامر ظہیر بھٹی، مائرہ فریال ملک اور حمیرا اشفاق نے مسرت شیریں کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوب صورتی سے اُجاگر کیا۔ گفت گو میں یہ تاثر نمایاں تھا کہ مسرت شیریں محض ایک فرد نہیں، بل کہ عہدِ حاضر کے تخلیقی شعور کی ایک جیتی جاگتی علامت ہیں۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک اور نعتِ رسولِ مقبول صلعم سے ہوا، جس کی سعادت راشد منصور نے حاصل کی۔ بعد ازاں علی احمد گجراتی نے اپنی رواں اور خوب صورت نظامت سے محفل کو حسن بخشا۔ ایک ایک کر کے شعرا نے اپنا منتخب کلام پیش کیا، تو مشاعرہ رنگین لمحوں اور جاودانی تاثرات سے بھر گیا۔
دیگر معزز مہمانوں میں نعیم الدین فاروقی، تنویر دانش، میثم نقوی، شاہد اقبال، سجاد لاکھا، ازور لان، رئیس عباس، نازیہ درانی، معظمہ تنویر، عدنان منور، فیصل شہزاد، علی روش، عامر قریشی، نزاکت علی مرزا، یاور حسن، ارسلان ارسل، ڈاکٹر مظہر اقبال رضوی، علی نقشبندی، ثمینہ تبسم، آنسہ مظہر انسی، رضوانہ مسرت، حمزہ نصیر اور ارشد منہاس بھی شامل تھے۔
یہ شام صرف ایک تقریب نہ تھی، بل کہ ایک ادبی عہد کا اعلان تھی۔ ایسے پروگرام لکھنے والوں کے حوصلے بڑھاتے ہیں، نوآموز تخلیق کاروں کو حوصلہ دیتے ہیں اور سماج میں ایک ایسا فکری ماحول پروان چڑھاتے ہیں، جہاں ادب کی روشنی اندھیروں کو چیرتی ہے۔ اچھا ادب اور سچا ادیب ہمیشہ اپنے وسیب کو نئی راہوں کی بشارت دیتا ہے اور یہی بشارت مسرت شیریں کے نام اس شام کی اصل روح تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔











One Response
ان مقالے کا مزہ یہ ہے کہ اس میں ہر سے اپنا نشانہ بھیجتا ہے، لیکن میرے نزدیک سب سے اچھا نشانہ جو مسرت شیریں کو دیا گیا ہے، وہ ایک ایسا ہے جو کچھ نہیں دیا، بلکہ سب کو یاد دیتا ہے کہ ان کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے! ایسے پروگرامات سماج میں ایک ایسا فکری ماحول پیدا کرتے ہیں کہ لگتا ہے سب لوگ فائدہ مند ہو رہے ہیں، مگر کچھ اور بھی ہوتا ہے جو کم و بیش ہوتا ہے، لیکن اس میں شامل ان تمام ناموں کو یاد کرنا بہت خوشی کا باعث ہے۔