ہمارے معاشرے میں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم دوسروں کی کم زوریوں اور دُکھوں کو اپنی تفریح کا سامان بنا لیتے ہیں۔ بخت رحمان کی کہانی اسی المیے کی زندہ مثال ہے۔ وہ ایک ذہنی مریض تھے، مگر سوشل میڈیا نے اُنھیں ایک ایسی ’’سیلبرٹی‘‘ (Celebrity) بنا دیا، جس کی ہر ویڈیو وائرل ہوتی اور لاکھوں لوگ اس پر قہقہے لگاتے ۔ اکثر افراد جان بوجھ کر اُنھیں تنگ کرتے، اُن کے مزاج کے خلاف بات کرتے، تاکہ وہ غصے میں آ کر کچھ الفاظ کہیں اور یہ الفاظ ’’تفریحی مواد‘‘ بن سکیں۔ یوں اُن کی معصومیت دوسروں کے لیے ’’ریٹنگز‘‘ اور ’’لائکس‘‘ کا ذریعہ بنتی رہی۔ یہاں تک کہ بچے بھی اُن کی زبان دہرانے لگے اور وہ جملے جو دراصل بیماری کی علامت تھے، ہمارے معاشرتی مِزاح کا حصہ بن گئے۔
یہ منظرنامہ دراصل ہماری اجتماعی اخلاقیات کا نوحہ ہے، کیوں کہ ایک ذہنی مریض کو سہارا دینے کے بہ جائے ہم نے اُسے اپنی ہنسی مذاق کا ذریعہ بنا دیا۔ بخت رحمان شاید یہ جانتے بھی نہ ہوں کہ وہ معاشرے کے ایک بڑے حصے کے لیے ’’انٹرٹینمنٹ ٹول‘‘ بن چکے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے سامنے ایک ایسا آئینہ ہیں، جس میں ہماری اپنی بے حسی اور سفاکی جھلک رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں بخت رحمان کو گرفتار کیا گیا، لیکن یہ گرفتاری دراصل ایک علامتی گرفتاری ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اصل گرفت اُن لوگوں کی ہونی چاہیے، جو اُنھیں بار بار چھیڑ کر تماشا بناتے رہے، ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ’’اَپ لوڈ‘‘ کرتے رہے اور پھر لائکس اور شیئرز کے ذریعے اپنی تسکین کرتے رہے۔ بخت رحمان کو گرفتار کرنا مسئلے کا حل نہیں، اصل گرفتاری ہماری اخلاقیات کی ہونی چاہیے۔
یہ واقعہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ذہنی مریض تفریح نہیں، بل کہ توجہ، علاج اور ہم دردی کے مستحق ہوتے ہیں۔ ہمیں سوشل میڈیا کو دوسروں کی کم زوری پھیلانے کے بہ جائے مُثبت مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ والدین اور اساتذہ کو بھی بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ کسی کی بیماری یا کم زوری کا مذاق اُڑانا انسانیت کے خلاف ہے۔ ریاست اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے افراد کی بہ حالی کے لیے عملی اقدامات کریں، تاکہ وہ معاشرے کا کارآمد حصہ بن سکیں۔
بخت رحمان ایک فرد سے زیادہ ایک علامت ہیں۔ وہ ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ اصل بیماری کسی ایک ذہنی مریض میں نہیں، بل کہ اُس معاشرے میں ہے جو قہقہوں کے پیچھے اپنی بے حسی چھپائے بیٹھا ہے۔ اگر ہم نے اس سے سبق نہ سیکھا، تو آنے والے دنوں میں کوئی اور بخت رحمان ہماری بے رحمی اور غیر ذمے دار قہقہوں کا شکار ہوگا۔
یاد رکھیے ! انسان کا مذاق نہیں اُڑایا جاتا، کیوں کہ مذاق اُڑاتے اُڑاتے کہیں ہم خود اپنے انسان ہونے کا حق بھی کھو بیٹھتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










