دنیا میں قیادت کی کئی تعریفیں کی جاتی ہیں۔ کوئی اسے اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہے، کوئی اسے عوام پر حکم چلانے کا نام دیتا ہے…… لیکن اصل قیادت وہ ہے، جو عوام کی خدمت اور اُن کے دکھ درد میں شریک ہو۔
قیادت اگر خدمت کے بغیر ہو، تو محض ایک خالی خول ہے اور خدمت اگر قیادت کے بغیر ہو، تو محدود دائرے تک رہ جاتی ہے۔ انھی دونوں صفات کو یک جا کرنے والی شخصیت کا نام ہے ’’مفتی فضل غفور صاحب۔‘‘
15 اگست کے بعد آنے والا سیلاب بونیر کے لیے قیامتِ صغرا ثابت ہوا۔ گھروں کی چھتیں زمین بوس ہوئیں، کھیت اور کھلیان مٹی کا ڈھیر بنے اور لوگ بے یار و مددگار رہ گئے۔ ایسے میں مفتی فضل غفور صاحب نے عوام کا نہ صرف ساتھ دیا، بل کہ اُن کے دُکھ کو اپنا دُکھ بنالیا۔
15 اگست سے 20 اگست تک کے دنوں میں اُنھوں نے بارہا اجتماعی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ کبھی 7، کبھی 10، کبھی 15 اور ایک دن ایسا بھی آیا، جب 43 جنازے ایک ساتھ ادا کیے۔ یہ وہ لمحہ تھا، جب عوام نے دیکھا کہ اُن کا راہ نما صرف سیاست یا تقریر کا نہیں، بل کہ غم اور کرب میں شریک رہنے والا قائد ہے۔
مفتی فضل غفور صاحب نے متاثرین کے سامنے سب سے پہلے یہ ہدف رکھا کہ کسی بھی خاندان کا چولھا بجھنے نہ پائے ۔ متاثرہ لوگوں کو فوری طور پر محنت مزدوری کے مواقع فراہم کیے گئے، تاکہ وہ دوبارہ اپنے گھروں کا خرچ خود اُٹھا سکیں۔ وقتی امداد سے آگے بڑھتے ہوئے مستقل روزگار کے ذرائع پیدا کیے گئے، تاکہ لوگ دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔ محنت کش طبقے کو قرض اور بھیک کے بوجھ سے بچا کر باعزت روزی کمانے کا موقع دیا گیا۔ جب لوگ اپنے اپنے کام پر واپس گئے، تو نہ صرف ان کے گھروں کا نظام سنبھلا، بل کہ مقامی معیشت کو بھی نئی زندگی ملی۔
سیلاب کے فوراً بعد فوری نوعیت کے اقدامات کیے گئے، تاکہ لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں، جیسا کہ ایمبولینس سروس اور کفن و تابوت فراہم کیے گئے (163 خاندان مستفید ہوئے۔) 513 گھروں، 18 مساجد اور 400 دکانوں کی صفائی کی گئی، تاکہ لوگ دوبارہ اپنے مقامات پر لوٹ سکیں۔ 33 مقامات سے لکڑی کا ملبہ ہٹایا گیا اور زندگی کاپہیا پھر سے رواں ہوا۔ 50 گھرانوں کے لیے صاف پانی فراہم کیا گیا، تاکہ بیماریوں سے بچا جا سکے۔ 90 گھروں اور دکانوں میں بجلی بہ حال کی گئی۔ 73 گھروں اور دکانوں کے شٹر اور گیٹ درست کیے گئے، تاکہ لوگ محفوظ رہ سکیں۔ 223 گھروں میں نکاسیِ آب کا نظام درست کر کے صحت کے مسائل سے نجات دلائی گئی۔
بہ حالی کے کاموں کے ساتھ ساتھ دینی و سماجی سرگرمیوں کو بھی زندہ کیا گیا، جیسا کہ مدارس کے لیے 25 ہزار اسکوائر فٹ کارپٹ فراہم کیا گیا۔ 200 گھروں کے بجلی کنکشن بہ حال کیے گئے ۔ 1200 قرآن مجید کے نسخے تقسیم کیے گئے۔ 100 علمائے کرام کو علمی کتب دی گئیں۔ بے گھر خاندانوں کے لیے 297 گھروں اور 5 مساجد میں خیمے لگائے گئے۔ 2500 گھرانوں کو خوراک فراہم کی گئی۔ 177 خاندانوں کو بستر، برتن اور دیگر ضروری سامان دیا گیا۔ 263 خاندانوں کو نقد رقوم دی گئیں، تاکہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرسکیں۔ 1170 گھروں کے لیے واٹر سپلائی اسکیم شروع کی گئی۔ 350 گھنٹے ایکسکیویٹر سروس کے ذریعے راستے اور پشتے درست کیے گئے۔ یتیموں اور بیواؤں کے لیے 3 گھروں کی زمین خریدی گئی۔ 65 متاثرہ خاندانوں کو سرکاری ریکارڈ میں رجسٹر کر کے، اُنھیں معاوضے کا حق دلایا گیا۔ 45 مقامات پر انجینئرنگ سہولیات فراہم کی گئیں۔ 224 گھروں کو سولر سسٹم دیا گیا۔ 28 گھروں، 5 مساجد اور ایک شمشان گھاٹ کی تعمیر کی گئی۔
اس کے علاوہ ڈونرز اور تنظیموں کے ذریعے 40 مزید گھروں کی تعمیر عمل میں آئی۔ پاک ایڈ کی مدد سے 2 گھر جب کہ اپرہینڈ آرگنائزیشن کی مدد سے 20 گھر تعمیر ہوئے۔ 12 نان فروشوں کو تندور اور سامان دیا گیا۔ 63 درزیوں کو سلائی مشینیں فراہم کی گئیں۔ 25 نائی حضرات کو نیا سامان ملا۔ 14 موٹر سائیکل میکینک، 12 الیکٹریشن اور 23 موبائل ریپیئرنگ کاریگر دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ 105 ریڑھی بانوں کو ریڑھیاں اور سرمایہ دیا گیا۔ 9 نانبائیوں کو دیگیں فراہم کی گئیں۔ 32 آٹا مشینوں کی بہ حالی کے لیے 20 لاکھ روپے دیے گئے۔ 28 ہوٹل اور 10 چائے کیفے دوبارہ کھولے گئے۔7 فوٹو اسٹیٹ مشینیں، 11 پنکچر دکانوں کے سامان اور 15 میکینکوں کو ویلڈنگ اوزار فراہم کیے گئے۔8 موچیوں، 25 دکان داروں اور 16 گھڑی سازوں کو دوبارہ اپنے روزگار پر لگایا گیا۔
یہ ہی نہیں بل کہ نوجوانوں اور طلبہ کے لیے 25 لیپ ٹاپ فراہم کیے گئے۔ کھیلوں کے میدان بہ حال کیے گئے اور 10 ٹیموں کو کٹس دی گئیں۔ 12 وائرلیس سیٹ دیے گئے، تاکہ ہنگامی رابطہ ممکن ہو۔ بٹئی گاؤں کے لیے قبرستان کی زمین خریدی گئی۔ پرائیویٹ اسکولوں کے لیے کتب، بیگ اور فرنیچر دیا گیا۔حال ہی میں ایک کروڑ روپے مالیت کے رکشے تقسیم ہوئے اور 220 خاندانوں کو راشن فراہم کیا گیا۔
یہ سب کچھ کسی ایک فرد کے بس میں نہ تھا۔ یہ خدمت ممکن ہوئی جمعیت علمائے اسلام ضلع بونیر، مدارس کے طلبہ، تبلیغی جماعت کے احباب اور اہلِ خیر حضرات کے تعاون سے ۔ بونیر کے سیلاب نے جہاں ہزاروں خاندانوں کو اجاڑا، وہیں یہ حقیقت بھی واضح کی کہ قیادت وہی ہے، جو مشکل وقت میں عوام کا سہارا بنے۔ مفتی فضل غفور صاحب نے جنازوں میں شریک ہو کر عوام کے دُکھ کو اپنا دُکھ بنایا اور روزگار کی بہ حالی سے اُمید کا چراغ جلایا۔ یہی قیادت ہے، یہی خدمت ہے اور یہی اصل راہ نمائی ہے ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔










