(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
وہ ایک بہادر سپاہی، بہترین شاہ سوار اور دانا آدمی تھے۔ اگرچہ وہ مکمل طور پر ناخواندہ تھے، لیکن ان کی پشتون ولی، پشتون جرگہ اور پشتون رسوم و رواج کے بارے میں معلومات بے نظیر تھیں۔
نسلی طور پر، وہ ایک مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی نسل مجدد الف ثانی کے واسطے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچتی ہے۔ اسی وجہ سے اس خاندان والوں کو صاحبزادگان کہا جاتا تھا۔ ان کی ذاتی زندگی بھی فلمی کہانی کی طرح مہم جویانہ اور رومانوی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ اپنی پہلی بیوی کی پُراَسرار موت کے بعد، انھوں نے ایک بیوہ لڑکی سے زبردستی نکاح کیا اور گھوڑے کی پیٹھ پر دریائے سوات عبور کرتے ہوئے ، جُورہ، سوات بالا کے خان کے پاس پناہ لی۔
میری ان سے واقف یوں تھی کہ وہ سیدو شریف کے افسر آباد میں پہاڑی کے دامن پر واقع آخری گھر میں رہتے تھے۔ مَیں 11 سال کا بچہ تھا اور اپنے والد کے ساتھ ان کے حجرے میں جاکر ریڈیو پاکستان پشاور سے پشتو کی خبریں اور پایندہ خان وغیرہ کے ٹاک شوز سنتا تھا۔
مَیں فطری طور پر باتونی تھا اور اسی طرح وہ بھی، لہٰذا میں ان کے ساتھ میری اچھی بنتی تھی اور وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ (مَیں اکثر ان سے اختلافِ رائے رکھتا، تو) میرے والد اکثر مجھے کہتے تھے کہ اپنے الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کروں اور اس نابغہ شخص کی رائے کا احترام کروں۔ کیوں کہ وہ عمر اور رینک دونوں میں میرے والد سے بڑے تھے۔ وہ ریاستی افواج کے گھڑ سوار دستے کے کمانڈر تھے ۔
کبھی کبھی، ہم سردیوں کی طویل راتوں میں عشا کی نماز کے بعد بھی ان کے حجرے میں جاتے اور بڑے کمروں میں آگ کی گرمی کا لطف اٹھاتے۔ کبھی کبھار ہم ساتھ ملاکنڈ ایجنسی کے اپنے کزن کی طرف سے بھیجے گئے مالٹے کھاتے۔ میرا بچپن ایسے عقل مند اور شان دار ریاستی افسروں کے ساتھ گزرا…… لیکن ان کی حکمت، دانش، انصاف اور ’’رواج‘‘ پر کمانڈ سب سے زیادہ تھی۔ انھیں بادشاہ صاحب اور والی صاحب دونوں کا پختہ اعتماد حاصل تھا، جب گھڑ سوار دستہ ختم ہوا، تو انھیں باقاعدہ فوج میں کیپٹن بنا دیا گیا۔
غالباً یہ 1950ء کی دہائی کا دوسرا نصف تھا کہ ان کی بیوی نامعلوم سمت سے آنے والی 0.22 کیلیبر رائفل کی گولی کا نشانہ بن کر مرگئی۔ بہ ہر حال، ان کی زندگی اسی وقار اور عزت کے ساتھ جاری رہی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد، والی صاحب نے انھیں ’’منصف‘‘ یا ثالثی جج بنا دیا۔ انھیں کچھ عملہ دیا گیا اور سیدو شریف میں ’’دفتر منصفان‘‘ نام کے دفتر کا افسر مقرر کیا گیا۔
انھیں عبد الخالق خان، جو اوڈیگرام سے تھے، کی معاونت حاصل تھی۔ دونوں کی رینک اور سرکاری فرائض کی انجام دہی میں اختیارات یک ساں تھے۔ والی صاحب کو ان پر بڑا اعتماد تھا اور انہوں نے ان کا اپنی خود نوشت میں ذکر کیا، جیسا کہ فریڈرک بارتھ کو بتایا گیا۔
یہ ’’گاشکوڑ‘‘ کے صاحبزادہ محمد شیرین فاروقی تھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
