سیدو بابا پل سے نتھی یادیں

Blogger Fazal Raziq Shahaab

اس بلاگ میں شامل تصویر میں لکڑی کا پل نمایاں نظر آرہا ہے۔ اس پُل کے دوسرے اینڈ پر ایک تو شاہی محمد ولد نظرے حاجی صاحب کی کپڑے کی دُکان تھی۔ کبھی کبھی امیرزادہ استاد صاحب بھی کپڑا ناپتے نظر آتے تھے۔ اس طرح ایک دُکان حافظ بختیار حاجی صاحب کی تھی کریانے کی۔ ہم اُن سے ماہانہ اُدھار کے طور پر چائے، گڑ، آٹا وغیرہ لاتے تھے۔ زیادہ تر میرا بھائی سلطان سودا سلف لاتا تھا۔
بلال حافظ جی صاحب اُس سے پہلے افسر آباد کے سرکاری مسجد کے امام تھے۔ پھر اُنھوں نے سرسینئ سے اپنے ایک چچا حافظِ قرآن کو بلواکر اسی مسجد میں امام لگوایا۔ غالباً فضل ہادی نام تھا اُن کا۔ وہ لمبی سرخ داڑھی خضاب سے رنگتے تھے۔ چہرے کا رنگ سرخ اور اس پر چیچک کے مدہم سے داغ تھے۔ اُن کے کئی بیٹے تھے۔ کوئی پوچھتا کہ مولوی صاحب آپ کے کتنے بیٹے ہیں؟ تو ذرا سوچ کر بتاتے: ’’پتا نہیں، سات دلھنوں کی اولاد ہے۔‘‘
موصوف کئی سال بعد دورانِ حج خوارج کے قبضۂ کعبہ کے دوران میں شہید ہوگئے تھے۔
آیئے، اَب پل کی دوسری جانب! قریب ہی پکی دُکانوں میں عبدالمولیٰ ماما کی دُکان تھی کپڑے کے۔ یہیں پر ایک موچی پرانے جوتوں کی مرمت کرتے تھے۔
یہ 1961ء کا واقعہ ہے۔ مَیں مذکورہ سال یکم جولائی سے ریاست کے محکمۂ تعمیرات میں 18 سال کی عمر میں بھرتی ہوا تھا۔ عبدالروف طوطا بھی میرے ساتھ ہی نوکری پر لگ گیا تھا۔ اُس وقت اُس کے والد عبدالحمید خان سیدو پولیس تھانے کے انچارج تھے۔ ویسے تو وہ اپنے تمام عملہ کے لیے بہ منزلہ والد کے تھے، لیکن ایک سپاہی صابر نامی اُس کا بہت چہیتا اور فرماں بردار تھا۔
ہم دفتر میں شاید دو تین مہینوں سے آنے لگے تھے، بالکل "Fresh” اور "Enquisitive”۔ اچانک ایک خبر آگ کی طرح پھیلتی ہوئی ہمارے دفتر تک آگئی، جو اُن دنوں سیدو ہسپتال کے سامنے صرف دو بڑے کمروں اور ایک برآمدے پر مشتمل تھا۔ سامنے کھلی سڑک تھی اور دوسرے کنارے ہسپتال کی واٹر ٹینک اور ڈینٹل بلاک تھا۔
خبر یہ آئی کہ صابر نے اسی لکڑی کے پل کے قریب جوتیاں مرمت کرنے والے موچی کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص کو پستول کی گولی سے قتل کردیا ہے اور خود تھانہ آکر گرفتاری دی ہے۔
سمجھو، قیامت آگئی تھی۔قتلِ عمد اور وہ بھی دارالخلافہ (سیدو شریف) میں……! جائے وقوع سیدو بابا کی مسجد کے قریب اور شاہی دفاتر کے قریبی حدود……اتنا بڑا جرم، اتنی دیدہ دلیری…… شمجھو، ایک گولی نے سارے سسٹم کو ہلا کر رکھ دیا۔
عبدالحمید صاحب تو کافی تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اب اس کے پسندیدہ سپاہی کی چند سانسیں ہی باقی ہیں۔ اُس کے بعد کیا ہوا……والیِ سوات نے اس بات کا کتنا سخت اثر لیا ہوگا۔ قاضیوں نے صابر کا اقبالی بیان سنا۔ گواہ بھی کافی تھے۔ فوراً قصاص کا حکم جاری ہوا۔ہم دفتر کے برآمدے میں کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ صابر کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ چند پولیس ساتھ تھے۔ تھانے دار عبدالحمید نے آخری کوشش کی کہ ’’جنابِ عالی! مقتول کا وارث برسوات سے آجائے، تو قصاص وہ لے لے۔‘‘
مگر والی صاحب نے کہا: ’’اس وقت مقتول کا وارث ’ریاست‘ ہے اور تم ریاست کی نمایندگی کرتے ہوئے صابر کو خود گولی ماروگے۔‘‘
بعد میں والی صاحب کے حکم کے مطابق قاتل صابر کو گولی مار دی گئی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے